• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہانی کچھ یوں ہے کہ ملکہ وکٹوریہ انیسویں صدی میں دنیا کی بااثر ترین سربراہانِ حکومت میں شمار ہوتی تھیں۔ حقیقتاً ان کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی تاریخ کی بھی وہ ایک بااثر ترین ملکہ تھیں جنہوں نے تقریباً 64سال تک پورے جاہ و جلال سے حکومت کی۔ انہی کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120سالہ تسلط کو ختم کرکے ہندوستان کو باضابطہ طور پر برطانوی کالونی بنا لیا گیا اور 1876ء میں ملکہ وکٹوریہ قیصرِ ہندوستان بن گئیں۔ یہ یورپ بلکہ دنیا بھر میں یہ انتہائی تبدیلیوں کا دور تھا لیکن برطانیہ سے زیادہ طاقتور ملک کوئی بھی نہیں تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں 10برطانوی وزیراعظم آئے، ملکہ وکٹوریہ اپنی حکومت کی سلور جوبلی منا رہی تھیں اور ہندوستان نیا نیا برطانوی کالونی میں شامل ہوا تھا لیکن ملکہ کبھی ہندوستان نہیں گئی تھیں۔ شاہی محل میں ہندوستانی نوجوانوں کا گھڑ سوار دستہ تو موجود تھا لیکن وکٹوریہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ان کیلئے دو ذاتی خدمتگار ہندوستان سے منگوائے جائیں۔ ملکہ کے اس حکم کی تعمیل کیلئے آگرہ کی سینٹرل جیل کے ایک ملازم منشی عبدالکریم اور محمد بخش کو لندن بھجوا دیا گیا، شاہی محل میں جلد ہی عبدالکریم نے اپنی دیانت اور بہترین ہندوستانی کھانے بنانے کی وجہ سے ملکہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ملکہ اُن پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگیں ملکہ عمر رسیدہ تھیں اور تنہائی کا شکار ہونے کے ساتھ درباری چاپلوسوں سے بھی بیزار تھیں چنانچہ جلد ہی وہ 25سالہ عبدالکریم میں دلچسپی لینے لگیں اور وقت گزرنے کے ساتھ عبدالکریم سے قرآن اور اردو زبان بھی سیکھنے لگیں اور انہیں اپنے اتالیق کا درجہ دے دیا۔ ایک ہندوستانی خدمتگار پر اس قدر نوازشات دیکھ کر ملکہ کا بیٹا، خاندان کے دیگر لوگ اور وزیراعظم تک ملکہ وکٹوریہ کے خلاف ہو گئے اور منشی عبدالکریم کو واپس ہندوستان بھجوانے پر زور دینے لگے لیکن ملکہ نے کسی کی بات نہیں سنی بلکہ منشی عبدالکریم کی بیوی اور دیگر فیملی کو بھی ہندوستان سے انگلستان بلوا لیا۔ ملکہ نے عبدالکریم کو کئی خطوط بھی لکھے جو بعدازاں شاہی خاندان نے چھین کر جلا دیے تھے تاہم بعض خطوط آرکائیو میں آج بھی موجود ہیں۔ معروف صحافی رضا علی عابدی نے ’’ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جبکہ ’’وکٹوریہ اینڈ عبدل‘‘ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی ہے۔

قدیم رومانوی داستانوں کی طرح برطانوی شاہی خاندان میں بھی عشق و محبت کے لئے بادشاہت سے بغاوت کے بہت سے واقعات موجود ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ منشی عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریہ کے درمیان بھی تعلق میں کسی عشقیہ واردات کا کوئی معاملہ تھا کیونکہ کسی پرانی دستاویز سے اس کی کوئی واضح شہادت نہیں ملتی۔ ممکن ہے ملکہ اور عبدالکریم کا باہمی تعلق شفقت اور عزت و احترام کا ہو لیکن ملکہ وکٹوریہ کی موت کے بعد انہی کی اولاد میں سے کنگ ایڈورڈ ہشتم کا مشہور عشق تاریخ میں موجود ہے کہ کس طرح بادشاہ نے ویلس سمپسن جو بالٹی مور امریکہ کی اور دو مرتبہ طلاق یافتہ تھی جس کے دونوں سابق شوہر بھی زندہ تھے، سے شادی کیلئے بادشاہت چھوڑ دی کیونکہ رائج قانون کے مطابق بادشاہ ہوتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے بادشاہ نے عشق کیلئے بادشاہت کو تیاگ دیا چنانچہ کنگ ایڈورڈ سے پرنس آف ویلز کا ٹائٹل واپس لیکر ڈیوک آف ونڈسر بنا دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر برطانوی شاہی خاندان کے حالیہ باغی شہزادے شہزادہ ہیری اور ان کی امریکن بیوی میگھن نے شاہی زندگی اور القابات سے بغاوت کی تو وہ محل کے اسی کاٹیج میں رہائش پذیر تھے جہاں کبھی منشی عبدالکریم اور ان کی فیملی رہا کرتی تھی۔

یہ کوئی آٹھ دہائیاں پہلے کی بات ہے زیادہ قدیم رومانی قصہ نہیں ہے کہ کنگ ایڈورڈ جو حالیہ ملکہ الزبتھ کے چچا تھے، نے اپنی تمام تر خاندانی روایات توڑ کر ویلس سمپسن سے شادی کی اور اس محبت کیلئے یہ کہہ کر کہ ’’آج محبت نے سیاست پر فتح حاصل کر لی ہے‘‘، تخت و تاج کو ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد دوسری مثال موجودہ ملکہ کی چھوٹی بہن شہزادی مارگریٹ کی ہے جس نے برطانوی افواج کے گروپ کیپٹن پیٹر ٹائونسینڈ کے عشق میں شاہی روایات کو ٹھوکر مار دی لیکن پھر شادی کی تو شاہی محل کے فوٹو گرافر اسنو ڈائون سے کیونکہ مارگریٹ کو بھی شاہی آداب کے مطابق ایک فوجی سے معاشقے اور شادی کی اجازت نہیں تھی۔ پھر شاہی خاندان کی ایک نئی نسل آئی جس میں شہزادہ چارلس شامل تھے، چارلس بچپن سے کمیلا پارکر بائولز سے محبت کرتے تھے لیکن کمیلا کی شادی اینڈریو پارکر بولز سے ہوئی اور شہزادہ چارلس نے ڈیانا سے شادی کر لی لیکن محبت وہ کمیلا سے ہی کرتے رہے۔ ڈیانا کی کار حادثے میں موت ہوئی تو شہزادہ چارلس نے اپنی پہلی محبت کمیلا پارکر سے دوسری شادی کر لی جو اپنے پہلے شوہر سے 1995ء میں طلاق حاصل کر چکی تھی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کنگ ایڈورڈ اپنی نوبیاہتا امریکی بیوی کو لے کر فرانس چلا گیا اور پیرس کے ایک پرانے قلعہ کو اپنی رہائش گاہ بنا لیا۔ موجودہ ملکہ الزبتھ برطانیہ سے پیرس گئیں اور اپنے چچا و چچی کو ڈچز اور ڈیوک آف ونڈ سر کا خطاب دے کر واپس آنے کیلئے رضا مند کیا اور وہ واپس آ گئے۔ اب اس داستان کا ایک اور بھی حصہ ہے، پیرس کے جس قلعہ میں کنگ ایڈورڈ اور سمپسن رہائش پذیر تھے اسے لیڈی ڈیانا کے محبوب ڈوڈی الفائد نے خرید لیا تھا جو لندن کے مشہور اور مہنگے ترین اسٹور ’ہیروڈز‘ کے اس وقت مالک محمد فائد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ڈوڈی الفائد کا پلان تھا کہ ڈیانا سے شادی کے بعد وہ اسی قلعے میں رہائش اختیار کرے گا لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔ یہ صورتحال بھی دلچسپ ہے کہ ونڈ سر کاسل کا فروگمور کاٹیج جہاں کبھی منشی عبدالکریم اور اس کی فیملی رہائش پذیر تھی پھر یہاں کنگ ایڈورڈ اپنی بیوی کے ساتھ رہے اور آج ملکہ وکٹوریہ کی موت کے پورے 200سال بعد انہی کی اولاد میں سے شہزادہ ہیری بھی اپنی امریکن بیوی کے ساتھ اسی کاٹیج کو چھوڑ کر رخصت ہو رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کاٹیج 200برسوں سے شاہی محبت کی کہانیوں کا امین کہا جا سکتا ہے۔ اس تمام داستان میں ایک ایشو کھل کر سامنے آتا ہے کہ شاہی خاندان کی بیشمار بندشوں کی وجہ سے بدلتے ہوئے زمانے، وقت اور تقاضوں کے ساتھ جونہی کوئی شاہی خاندان کا فرد اسٹیٹس کو کو توڑنا چاہتا ہے تو باغی ہونے والے کیلئے یہ ٹرننگ پوائنٹ ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی تمام روایات کو پس پشت ڈال کر ’شاہی قفس‘ سے نکلنا چاہتا ہے۔ جہاں تک ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم کی آپس میں انسیت کا تعلق ہے تو دستیاب تاریخی حوالوں میں ان دونوں کے معاشقے کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔

تازہ ترین