• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے پچھلے کالم میں آپ کی خدمت میں فرقہ واریت و قتل وغارتگری کے بارے میں چند معروضات پیش کی تھیں۔ کلام الٰہی کا حوالہ دے کر واضح کیا تھا کہ جس مسلمان نے قصداً کسی بے گناہ مسلمان کو قتل کیا اس کے لئے اللہ رب العزّت نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جگہ بنادی ہے اور یہ بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے۔ جہاں پینے کے لئے پگھلا ہوا تانبا ملے گا اور رہنے کے لئے دہکتی آگ۔
سب سے قابل نفرت اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم نام نہاد مسلمانوں نے اسلام جیسے اعلیٰ مذہب کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرکے ہمیں پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے۔
اسلام تمام مذاہب میں بہت سی حیثیتوں سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ اس کے نام پر غور کریں۔ یہ کسی شخصیت کے نام سے نہیں جانا جاتا، نہ کسی علاقہ کا اس کے نام میں ذکر آتا ہے،کسی تاریخی واقعے کا بھی اس نام میں کوئی حوالہ نہیں۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ (Root) اس ل م ہے جس کا بنیادی مفہوم امن، آشتی، سکون اور ہم آہنگی ہے۔ اس مادہ سے مصدر بنا ہے ”اسلام“۔اس کا مطلب عربی زبان میں ”اپنے کو سپرد کر دینا “ ہے یعنی جب ایک انسان اپنی خوشی سے اور آزاد رائے سے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے تو وہ عمل ”اسلام“ کہلاتا ہے۔ اسی لفظ میں یہ اضافی مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کی اصلی اور سب سے برتر حقیقت اور بالاتر ہے اس کو اپنا خالق، مالک اور آقا تسلیم کرکے انسان کو دلی سکون اور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر انسان اپنے پیدا کرنے والے کا انکار کرتا ہے اس کے احکام سے بغاوت پر تلا ہے تو اس کی زندگی میں پھر امن و سکون نہیں آسکتا۔ وہ ایک سرکش باغی بن کر جیسے تیسے اپنا وقت دنیا میں تو گزار لیتا ہے مگر آخرت میں ایک دردناک ابدی سزا اس کا مقدر بن کر رہتی ہے اور جب تک وہ یہاں رہتا ہے امن و سکون اس کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ نعمت صرف اللہ سے محبت کرنے والے اور اس کے فرمانبردار بندوں ہی کو مل سکتی ہے۔ اسی اندرونی اطمینان، سکون اور ہم آہنگی کی کیفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا اس کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ انسان انسان کا دوست اور خیر خواہ بن جاتا ہے۔ تمام انسان آپس میں ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ جیسا کہ ایک مشہور حدیث مبارک میں کہا گیا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اس حدیث کی رو سے نہ صرف انسان ایک خاندان کے رکن قرار پاتے ہیں بلکہ اس دنیا کی تمام مخلوقات، حیوانات، پرندے، چوپائے، درندے، ہوائی مخلوق ہو یا آبی، حتیٰ کہ نباتات کی دنیا تک اس خاندان میں شامل اور شمار کی جاتی ہے۔
جب اسلام کامفہوم اس قدر وسیع، کشادہ اور آفاقی ہے تو پھر ایک مسلمان، اگر واقعی وہ سچا پکا مسلمان ہو، محض نام کا مومن نہ بنا پھرتا ہو، کیسے اپنے کو کسی بھی خول میں بند کرسکتا ہے؟ اسلام توکہتا ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے نبی اور رسول آئے سب کا مشترک مذہب ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ہر نبی نے ، ہر پیغمبر نے، ہر مذہبی رہنما نے اسی ایک مذہب کی دعوت دی، اس پر عمل کیا اور اسی کا دفاع ہمیشہ کیا۔ اس آفاقی سلسلہ انبیاء کا اختتام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا۔ انہوں نے وہی پیغام توحید انسانوں کو دیا جو حضرت آدم علیہ السلام نے دیا تھا، جو ہر نبی نے دیا۔ ہر قوم میں نبی بھیجے گئے اور اسی ایک پیغام کے ساتھ ان کو بھیجا گیا کہ ایک اللہ کو مانو، اس کی فرمانبرداری کرو اور اس کے سامنے آخرت میں پیش ہونے کے لئے تیار رہو۔ اس واضح تعلیم کا لازمی حصہ یہ تھا کہ ہر زمانے کے مسلمان تمام انبیاء پر ایمان لائے، تمام اگلے پچھلے پیغمبروں کی تصدیق کی، یہی تعلیم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر نے دی۔ قرآن نے واضح اعلان کیا کہ( ترجمہ) ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے سب کو مانتے ہیں، سورة البقرہ آیت نمبر285 )۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ  یا کسی اور نبی کی شخصیت کے بارے میں تصدیق ، احترام اور توقیر کا رویہ اختیار نہ کرے وہ دائرہ اسلام ہی سے نکل جاتا ہے۔ ان تمام انبیاء کو ماننا ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے جیسے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول تسلیم کرنا ہمارا ایمان ہے۔ قرآن کریم پڑھنے والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے اور سب مسلمان اس حقیقت سے واقف ہیں۔ قرآن کریم نے صاف تردید کرتے ہوئے ایک موقع پر یہ بات کہی ہے کہ حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ایک خالص ’مسلم‘ تھے“ (آل عمران: آیت 67 )، اسی طرح قرآن نے یہ بھی بار بار بتایا کہ گزشتہ انبیائے کرام نے آخری نبی یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری دی ہے اور حضرت ابراہیم  نے آپ کیلئے دُعا کی ہے (البقرة: 129 )۔
میں یہ باتیں کیوں دہرا رہا ہوں؟ یہ حقائق تو ہر مسلمان جانتا ہے۔ آخر یہ کلمہ ہم سب پڑھتے ہیں یا نہیں؟ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”میں ایمان لاتا ہوں اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر“۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ آج کل دنیا میں ، خاص طور پر دنیائے اسلام میں، یہ تصور کیوں زور شور سے پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان تنگ نظر ہیں، مسلمان متعصب ہیں، اسلام تشدد کی تلقین کرتا ہے، انتہاپسندی کی تعلیم دیتا ہے، مسلمان خود آپس میں لاتعداد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر فرقہ باقی سب کو دشمن سمجھتا ہے، صرف اپنے کو حق پر گردانتا ہے باقی سب کو واجب القتل قرار دیتا ہے،یہ اور اس طرح کی جھوٹ،بے بنیاد اور شرارت آمیز باتیں ہر طرف پھیلائی جارہی ہیں۔ کیا اخبار، کیا رسائل اور کتابیں ہر جگہ شرارت پھیلائی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اس پر لگے ہوئے ہیں۔ بے شمار نام نہاد ”تحقیقاتی“ کتابیں مغربی اداروں سے شائع کی جاتی ہیں اور ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مسلمان بے شمار فرقوں میں تقسیم ہیں، ان فرقوں کے مابین ناقابل عبور خلیج حائل ہے، ان کے درمیان کوئی باہمی احترام یا رواداری کا امکان نہیں، یہ آپس میں لڑنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں چنانچہ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، ہر سمت یہی معرکہ برپا ہے اور عالمی امن کو تہہ و بالا کئے ہوئے ہے بلکہ قریب قریب یہ بات ہمارے بیرونی دشمن اور سازشی عناصر، ہمارے قائدین کے دلوں میں بٹھا چکے ہیں کہ اس دنیا کا سارا فتنہ، فساد، بدامنی، جنگ و جدل، لڑائی جھگڑے، مارکٹائی، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلام سے جنم لیا ہے، اس کو دنیا میں عام کیا، یہ اسلام کا مقصد ہے،یہی اس کا مدعا ہے اور یہی ساری امت مسلمہ کا اصل منشا ہے۔
یہ سب جو ہورہا ہے اس پر تو کوئی حیرت مجھے نہیں ہے کہ دشمن کا کام ہی اور کیا ہوتا ہے۔ دشمن نے کب آپ کے بارے میں سچی گواہی دینے کا بیڑا اٹھایا تھا؟ اور کیا یہ کوئی نئی بات ہے کہ دشمن آپ کو بدنام کرنے میں لگا ہے، کیا اللہ کے رسولوں کو، پیغمبرانِ اسلام کو، اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام نہیں کیا گیا؟ کیا ان پر ہر طرح کے الزام اور بہتان نہیں لگے؟ کیا کفار مکہ نے، ابوجہل ،ابولہب نے، مدینہ کے منافقوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی بے بنیاد شرانگیز باتیں نہیں پھیلائیں؟ یہ کام تو لوگو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
اصل بات تو اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ہے، اپنا محاسبہ کرنے کی ہے، ہمیں خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ہمارا اپنا رویہ کیسا ہے؟ ہماری کوئی حکمت عملی اس پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کی کوئی ہے بھی یا نہیں۔ پھر یہ پروپیگنڈا ایک بہت بڑی منظم اور مربوط اسکیم کا حصہ ہے۔ جنگ ہے جو اسلام اور عالم اسلام کے خلاف برپا ہے اسی جنگ کا حصہ یہ ”ابلاغی حملہ“ بھی ہے۔
ہمارے اپنے بچے، ہمارے نونہال، ہمارا مستقبل جس سے ہماری سب امیدیں وابستہ ہیں اور انہی کے ذریعے ہم اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں، اس شیطانی چکر میں آتے جارہے ہیں اور ہمارے سامنے فرقوں کے نام پر منظم مسلح دہشت پرست گروہ ہمارے بچوں کو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ کیا ہم نے اس عمل کو روکا ہے؟ کیا سرکاری سطح پر کوئی ادارہ اس اہم ترین قومی ذمہ داری پر کبھی مامور ہوگا؟ مجھے سخت شک ہے کہ ہمارے حکمراں یہ کام نہ کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب سب مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اس کے تمام پیغمبروں کو صدق دل سے مانتے ہیں، محمدﷺکو خاتم النبیین مانتے ہیں، اسلام کے ارکان (نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور شہادت توحید) پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم  کے وقت سے سب مسلمان تھے اور کوئی یہودی اور نصرانی نہ تھا اور حضرت شاہ ولی اللہ ، حضرت مجدّد الف ثانی ، علّامہ شبیر احمد عثمانی ، حضرت شاہ عبدالعزیز ، مولانا شبلی ، علّامہ سیّد سلیمان ندوی کی تشریحات و تفاسیر پر یقین رکھتے ہیں تو پھر یہ فرقہ پرستی، یہ مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کیوں؟ یہ سب شیطانی سازشیں ہیں ہمیں تباہ و برباد و ذلیل کرنے کی تدابیر ہیں۔ خدارا سوچو اور اس لعنت سے جان چھڑاؤ ورنہ جہنم ہی تمہارا مستقل ٹھکانا ہوگا۔
تازہ ترین