• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان میں کرپٹ سیاست دان، متنازع ہوتا نیب، حقیقی عوامی جمہوریت کے لازمے ’’احتساب‘‘ پر ہوئی خامیوں سے پُر قانون سازی ہی ایک آئیڈیل اسلامی جمہوریہ کے بڑے واضح، خاصے شفاف احتسابی عمل میں رکاوٹ ہیں؟ یا اس میں ہمارا بتدریج اعتبار قائم کرتا اور پھر کھوتا نظام عدل (جوڈیشری) اور حکمرانوں کو کرپشن کی راہیں دکھاتے اور چلاتے بابو بھی اس کے ذمہ دار ہیں؟ ناچیز کی رائے میں جی ہاں! سو فیصد۔

اسی سوال و جواب سے نکلا ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی کسی بھی لحاظ سے مطلوب اسلامی جمہوریہ کے لازمی خاصے، جو آج کی شہرہ آفاق لبرل، سیکولر مغربی جمہوریتوں کا بھی لازمہ ہے، احتساب کا مطلوب عمل (نتیجہ خیز شکل میں) کبھی شروع بھی ہوا؟ جی ہاں ہوا، پاناما لیکس کے عالمی میڈیا میں آتے ہی، جب پاکستان میں احتساب کو قومی سیاست کا ایجنڈا بنانیوالے موجودہ وزیراعظم، غیر روایتی اپوزیشن لیڈر کے طور پر احتسابی عمل شروع کرانے کیلئے کوشاں تھے، اور تب جب احتسابی عمل کو ممکن بنانے کیلئے شروع ہوئے نون لیگی احتسابی عمل کے دوران جنرل و سابق صدر خود بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ گویا خانِ اعظم کے تعاقب میں اور پاناما سے قبل نون لیگ ہی تھی جس نے احتساب کا عمل شروع کیا، تاہم پاناما لیکس کے نزول نے نون لیگی دور میں ہی اتنا گیئر اَپ کیا کہ ملکی میڈیا میں احتساب کی قومی ضرورت نے بڑی جگہ بنائی۔ کرپشن کا شور تو بدترین جمہوریت کا عشرہ (2008-18ء) شروع ہوتے ہی اٹھ گیا تھا، جو بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس نے تب زور پکڑا جب اعتماد کھوئے نیب کے ایک سابق سربراہ نے عدالتِ عظمیٰ میں بعض زیر التوا مقدمات کی طوالت کے استفسار پر ببانگِ دہل اعتراف کیا تھا کہ ’’ہم نے کچھ نہیں کیا اور ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ اس بیان پر ساری مذمت بیچارے چیئرمین کی ہی ہوئی، حالانکہ جمود و طوالت کی جملہ وجوہات اسکے اظہارِ بےبسی میں پوشیدہ تھیں، اور پوشیدہ بھی کیا، یہ اوپن سیکرٹ تھا کہ وہ جن کا مقررہ کردہ تھا، طوالت اور جمود انہی کی حکومتی و سیاسی ضرورت تھی، جس طرح احتساب حقیقی جمہوریت اور ملک و قوم کی۔ ایک بیچارا چیئرمین نیب ہی کیا خود کرپٹ سیاست دانوں کو کرپشن کی سیاہ راہوں پر چلانے والی بابو شاہی، خود اور حکمرانوں کو باہمی طور پر چمک و دمک دار بنانے پر کمر بستہ تھی۔ اسے عوام کی خدمت سے کوئی غرض تھی نہ اپنے فریضے سے، بلکہ ان کی ساری صلاحیت اپنے ذریعہ نوازشات کو عوام کا ذریعہ خدمت اور آئینی انتظامیہ کے متوازی گھڑی ’’کمپنیوں کی حکومت‘‘ کو سنبھالنے پر لگی رہی۔ پاناما کے نزول کے بعد جب لو کپیسٹی نیب عوامی رائے عامہ، میڈیا اور خانِ اعظم کے پریشر میں سرگرم ہوا تو کافی کچھ ہونے لگا لیکن یہ سوال پھر بھی نہ اٹھا کہ حکومت کے متوازی بابوئوں اور منتخب ’’عوامی خادموں‘‘ کے ہاتھوں گھڑی کمپنیوں کی حکومت کے قیام کی آئین و قانون میں کتنی گنجائش تھی اور یہ کس طرح اور کتنی لازم انتظامی ضرورت تھی؟ تسلط کے بعد جب اسکے انڈے بچے ایک سے بڑھ کر ایک ناقابلِ تردید اسیکنڈلز خبر بننے لگے تو بھی ذرا ہوش نہیں آئی کہ یہ سب ملک و قوم سے تباہ کن غداری تو نہیں؟ یا پھر سرپرستوں اور معاونین کا ضمیر، چمک دمک میں اتنی گہری نیند میں چلا گیا کہ اچھے برے کی تمیز و پہچان یکسر ختم ہو گئی۔ اس سوچ و اندازِ حکمرانی اور انتظامیہ نے وہ نظامِ بد تشکیل دیا جس میں روٹیشن سسٹم (باری باری) کی حد تک ہی حکومتیں، پارٹیاں اور چہرے بدلتے رہے۔ کبھی سول، کبھی فوجی، کبھی مکس اور کبھی مرضی کی نیم اور کبھی بہترین آمریت کے مقابل بدترین جمہوری، حتیٰ کہ غیر جماعتی اور امپورٹڈ حکومتیں‘ متفقہ جمہوری آئین کی موجودگی میں فقط آئینی نام والی اسلامی جمہوریہ میں آتی جاتی رہیں۔ اسٹیٹس کو کی تشکیل اور اسے پکا کرنے اور سچا ثابت کرنیوالے سیاسی دانشور، باخبر صحافی اور رائے ساز تجزیہ کار بھی چمک و دمک والے شیطانی نظامِ بد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے بلا جھجک، بلاامتیاز لیفٹ رائٹ اپنے نظریات و دانش، باخبری اور رائے سازی کی صلاحیتیں بہتر سود و سودا اور مکر و فن کی نذر کر دیں یا پُرکشش ترغیبات سے کرا لی گئیں اور تو اور ادب و شاعری نے بھی اپنا حسیں چہرہ، عوام الناس سے موڑ کر اپنا رخِ زیبا در و دربار کی طرف کر دیا صحبتِ حکمرانی سے سرفراز ہونے لگے۔ جب ترازؤ عدل کے خالی پلڑے غیر متوازن ہونے لگتے ہیں تو سیاسی راہزنوں اور معاون بابوئوں کا گٹھ جوڑ بھی پکا اور سچا ہو جاتا ہے۔ انکے اشتراک سے تراشے عوامی مایوسیوں کے سمندر میں کوئی اور بڑی دھمک شہروں کی جانب بڑھتی معلوم دیتی، مارشل ٹچ کے صوتی اثرات کی یہ دھمک شہروں میں آ کر غالب ہوتی تو اجڑے مایوس عوام کو بھلی لگتی، لیکن اندھیرے چھٹنے اور صبح کاذب کے بعد بہت کچھ حاصل ہوا بھی ڈوب جاتا، اور پھر بدترین جمہوریت کی باری کی بہار آخر یہی روٹیشن سسٹم ملک کا پولیٹکل آرڈر قرار پایا۔ اس پس منظر میں کبھی گمنام اور کبھی سیلابی پھنکارتے احتسابی عمل کی طاقت اتنی تو ثابت ہوئی کہ نظامِ بد کی اس ڈگمگاتی طاقت کو مٹا تو نہ سکا لیکن بالآخر بڑے بڑوں کو کسی نہ کسی طرح کی سزا و اذیت کا شکنجہ تو بنا دیا۔ آخری نتائج نکالنے کی سکت اس میں نہیں۔ تاہم بڑا زور دکھانے کے بعد آخری نتائج نکالنے سے اس کی محرومی اتنا شک تو پیدا کر رہی ہے کہ معاملہ کمزوری کی طرف مڑ رہا ہے یا احتسابی عمل دم ہی توڑ رہا ہے؟ اسکی یہ کیفیت تب ہوئی جب غیر روایتی تبدیلی سرکار نے حکومت سنبھالی جو اس سے سنبھل نہیں پا رہی کہ یہ خود جزواً احتساب زدہ ہے۔ گہری تشویش یہ ہے کہ جیل پر جیل کے احتسابی عمل کے بعد بیل پر بیل والا قانون بگڑے احتسابی عمل کا دم تو نہیں نکال دے گا، جیسا کہ اس قانون کی طاقت دو بڑی روایتی جماعتوں اور مقابل اسٹیٹس کو کی ملاوٹ سے بنی تبدیلی سرکار کا پارلیمان میں قانون سازی پر حیرت انگیز اتفاق ہے۔ یا یہ کرشمہ جامد و خاموش بابو گیری سے نکلا ہے یا عدلیہ کی لچک سے۔ حاصل یہ کہ اسٹیٹس کو کی مکمل اور ملاوٹی حکومتوں کی طاقتیں مل کر بھی زور لگا لیں، بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں سے ٹیکس بمطابق ٹیکس لینے میں چاروں شانے چت کر کے ثابت کر چکیں کہ وہ خود کتنی بڑی طاقت ہیں، جن پر حکومتی رٹ نہیں چلتی، حکومت خواہ کوئی ہو۔ ایسے میں احتساب ہی سب سے بڑا سوال بن کر پورے نظام پر حاوی ہے۔

تازہ ترین