• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں عالمی بینک کی ڈوئنگ بزنس رپورٹ جو نومبر 2018سے جون 2019کے سروے پر مبنی ہے، کے مطابق پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانی کی درجہ بندی ریکارڈ میں 28درجے بہتری سے پاکستان گزشتہ سال کے 136ویں نمبر سے 108نمبر پر آگیا ہے۔

اس طرح پاکستان دنیا کی کاروباری اصلاحات کرنے والے ان 10بڑے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر آگیا ہے جن میں سعودی عرب، اردن، ٹوگو، بحرین، تاجکستان، پاکستان، کویت، چین، بھارت اور نائیجریا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ بندی میں نیوزی لینڈ پہلے نمبر، سنگاپور دوسرے اور ہانگ تیسرے نمبر پر ہے۔

بھارت 63، سری لنکا 99اور بنگلہ دیش 168ویں نمبر پر ہے۔ عالمی درجہ بندی میں بہتری سے پاکستان کےڈوئنگ بزنس اسکور میں 5.6، چین میں 4، بھارت میں 3.5جبکہ بنگلا دیش کے اسکور میں 2.5کا اضافہ ہوا ہے۔

اس طرح پاکستان نے مختلف محکموں میں اصلاحات کرکے بزنس کرنے میں آسانی رینکنگ کو بہتر بناکر چین، بھارت اور بنگلا دیش کو پیچھے چھوڑ دیا۔

قارئین! 2016میں پاکستان کی دنیا کے 190ممالک میں ڈوئنگ بزنس میں رینکنگ 148تھی یعنی ہم نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سرمایہ کاری حاصل کرنے کیلئے اپنے نظام میں مطلوبہ اصلاحات نہیں کی تھیں۔

2017میں پاکستان کی رینکنگ 144، 2018میں 147اور 2019میں بہتر ہوکر 136ہو گئی تھی جو 2020کیلئے 128ہو گئی ہے۔

پاکستان نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے کراچی اور لاہور میں جو اصلاحات کی ہیں، ان میں کراچی میں تعمیراتی اجازت ناموں کا بہتر نظام، بروقت انسپکشن اور ون ونڈو آپریشن، کاروبار کیلئے بجلی کا حصول، کمپیوٹرائزڈ پراپرٹی رجسٹریشن، ٹیکسوں کی آن لائن ادائیگی اور سرحد پار تجارت شامل ہیں جبکہ لاہور میں لیبر ڈپارٹمنٹ کی رجسٹریشن فیس کا خاتمہ اور تعمیراتی نظام کو ون ونڈو آپریشنز جیسے اقدامات شامل ہیں۔

پاکستان میں بزنس شروع کرنے کیلئے پہلے 10مراحل تھے جن کو کم کرکے اب 5کردیا گیا ہے۔

کارپوریٹ سیکٹر کے ٹیکسوں کی شرح بتدریج 35فیصد سے کم کرکے 29فیصد تک کردی گئی ہے جس سے پیمنٹ ادائیگیاں 47سے کم ہوکر 34رہ گئی ہیں۔ ٹیکسوں کے معاملات کیلئے پہلے سالانہ 294گھنٹوں کی ضرورت ہوتی تھی جو کم ہوکر اب 283گھنٹے رہ گئے ہیں۔

کراچی اور لاہور میں سب رجسٹرار کے دفتروں میں پراپرٹی رجسٹریشن کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے سے شفافیت کے علاوہ کم وقت میں پراپرٹی ڈیڈز حاصل کی جاسکتی ہیں۔

کمپیوٹرائزڈ کسٹم نظام کے تحت سرحد پار ایجنسیوں سے معلومات کے تبادلے سے کسٹم انسپکشن میں مدد ملی ہے۔ SECPکا چھوٹے شیئر ہولڈرز اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے سے پاکستان دنیا میں 30ویں محفوظ معیشت بن گیا ہے۔

ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ایلانگو پیچاموتو کے مطابق پاکستان کو معاہدوں پر عملدرآمد کیلئے اصلاحات کرنا ہوں گی جس میں پاکستان 190ممالک میں سے 156ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ایک کمرشل تنازع کو حل کرنے میں تقریباً 1071دن لگتے ہیں جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں دُگنا ہیں۔

کسی ملک میں سرمایہ کاری کیلئے کاروبار میں آسانی کا انڈیکس بیرونی سرمایہ کار کی اس ملک کے بارے میں رہنمائی اور سرمایہ کاری کے فیصلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کیساتھ پیداواری لاگت اور ملک میں سیاسی استحکام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

مثال کے طور پر کاروبار میں آسانی کے تحت بجلی یا گیس کنکشن جلد مل جائیں لیکن اگر بجلی گیس کے نرخ خطے کے مقابلے میں زیادہ ہوں تو یہ سہولت سرمایہ کار کیلئے پرکشش نہیں۔

اسی طرح ٹیکس، کسٹم یا دیگر حکومتی اداروں کے نظام میں اگر کرپشن ختم نہ کی گئی تو اصلاحات بے معنی رہ جائینگی۔ اسکے علاوہ اگر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں تو وہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار کیلئے نہایت منفی ہے۔

سی پیک کے مختلف منصوبوں بالخصوص اسپیشل اکنامک زونز بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے حکومتی مراعات اور 21سالہ ٹیکس چھوٹ نہایت پرکشش ہیں لیکن سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے ہمیں اپنی پیداواری لاگت میں کمی لانا ہوگی۔

بجلی اور گیس کے نرخ جو خطے میں سب سے زیادہ ہیں، کو چوری کی روک تھام اور سستے فیول کے استعمال سے کم کرنا ہوگا۔

گورنر اسٹیٹ بینک کو تجویز ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لاکر بینکوں کے قرضوں (لینڈنگ ریٹس) کی شرح سود میں کمی لائیں۔

بھارت میں پالیسی ریٹ 5.15فیصد، چین میں 4.35فیصد، سری لنکا میں 8فیصد، ملائیشیا میں 3فیصد، تھائی لینڈ میں 1.25فیصد اور انڈونیشیا میں 6.5فیصد جبکہ پاکستان میں 13.25فیصد ہے جس کی وجہ سے 15سے 16فیصد بینکوں کے لینڈنگ ریٹس پر ملک میں نئی سرمایہ کاری اور صنعتکاری ممکن نہیں۔

ہمیں اپنے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر ایکسپورٹ بڑھاکر مستحکم رکھنے ہوں گے اور اپنی پیداواری لاگت میں بھی کمی لانا ہوگی کیونکہ صرف کاروبار میں آسانیاں کافی نہیں ، پیداواری لاگت میں کمی لائے بغیر ہم سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دے سکتے۔

تازہ ترین