• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم اور ان کے وزراء کی بذلہ سنجی یا پھکڑپن۔ حکومتی اعلیٰ عہدیدار جن کے بارے میں یہ تاثر ہوتاتھا کہ ان کی شخصیت میں بُردباری، سنجیدگی، متانت ہوگی اور بات چیت انتہائی نپی تلی اور بہترین الفاظ کے چناؤکے ساتھ ہوگی۔ بہت سارے سیاست دانوں نے اس طور کو اپنایا اور اپنا وقار قائم کیا ۔لیکن اب سوشل میڈیا کی بھیڑچال میں ہمارے سیاستدان بھی رنگ گئے ہیں۔ مذاق اورپھکڑپن کی تمیز کھوچکے ہیں۔ بڑے بڑے جلسوں اورعوامی میٹنگز میں بے تکے جملے بولتے اور قصے سناتے ہیں کہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ کس مقصد کے لیے ڈائس پر کھڑے ہیں اور انہیں کس موضوع پہ بولنا ہے؟یہی وجہ ہے کہ ان کی تضحیک ہونے لگی ہےاورسوشل میڈیا کے ذریعہ ان کی اچھی خاصی بے عزتی کی جاتی ہے۔ لیکن ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ تصحیح کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ افراد رہنما نہیں بلکہ معذرت کے ساتھ مداری نظرآتے ہیں۔ بالکل ایسا لگتا ہے کہ عقل وشعور سے عاری افراد کو حکومت دے دی گئی ہے۔ جنہیں اپنی عزت، وقار،زبان اور قدر کا کوئی پاس نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف عہدے کو انجوائے کرنے آئیں ہیں اور عوام کے لیے گڈے گڑیا ہیں جن سے عوام کو اپنا دل بہلانا ہے۔ اسی طرح ملک وقوم کی خدمت کی جارہی ہے؟اصل خدمت سے ناعوام کو غرض ہے نہ حکمران کو! اقتدار سنبھالنے سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کفایت شعاری کی پالیسی اپنائیں گے۔ اور سرکاری خزانے سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچہ خود اٹھائیں گے اور ابھی چند دن پہلےوزیراعظم صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے دل دہلانے والا انکشاف کیا کہ جو تنخواہ ان کو بطور وزیراعظم پاکستان ملتی ہے اس میں ان کے گھر کا خرچ نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔عام آدمی تو اب تک اس خوش فہمی میں تھا کہ یہ پہلاوزیراعظم ہے جو تنخواہ نہیں لیتا۔۔۔۔۔لیکن الٹاہوگیا۔ وزیراعظم کو شکوہ ہے کہ ان کی تنخواہ کتنی کم ہے۔ یعنی غریب ملک کے وزیراعظم جن کے ٹھاٹ باٹ امریکیصدرجیسے ہیں(برطانیہ کے وزیراعظم سے کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ برطانیہ کے وزیراعظم بہت ہی چھوٹے گھر میں رہتے ہیں) اس کو اپنی تنخواہ کم لگتی ہو اورتنخواہ کے علاوہ جو مراعات ہیں اس کا تو کوئی ذکر نہیں۔ اس کے باوجود شکوہ زبان پر آگیا۔ لیکن یہ شکوہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی سوچا کہ وہ کس منہ سے لوگوں کو مشکلوں کو برداشت کرنے کا درس دیتے ہیں اور مزید مشکل دن کی نوید دیکر انہیں نہ گھبرانے کی تلقین کرتے ہیں؟ایسے میں سوائے ان کے فرمودات کامضحکہ بننے کے اور کیا ہوگا؟ کون ایسی باتوں کو سنجیدگی سے لے گا؟ لیکن ایوان میں وزیراعظم کے خرچے پورے نہ ہونے والے فقرہ کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ لہذا اب ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کا بل سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ جس میں تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مراعات میں بھی کئی گناہ اضافہ کی تجویز ہے۔ درد دل ہو تو ایسا ہو۔عوام گھبرائیںنہیں لیکن حکمران فوراً مالی مفاد میں اضافہ چاہیں۔ ایسے میں سارے سیاسی گلے شکوے، نفرتیں ختم ہوجاتی ہیں اور سارے سیاستدان شیروشکر ہوجاتے ہیں۔ آخر کو ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے کہ اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے؟بھلے سے یہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں تشریف لاتے ہوں بھی یا نہیں؟ اور اگر آبھی جائیں تو کچھ بھی نہ بولیں یاسوتےرہیںتویہی کیا قوم کی خدمت؟………

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین