• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کے”احیاء “ کے حوالے سے حمزہ شہباز نے عملی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور شہباز شریف بھی اس سارے منصوبے میں”ملوث“ نظر آئے بلکہ نواز شریف نے بھی جب اس کی تزئین و آرائش کی بابت اس نوع کے مشورے دینے شروع کئے کہ عمارت کے خدوخال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ کی جائے تاکہ اس کی تاریخی حیثیت برقرار رہے تو میں ان سب باتوں کے باوجود یہی سمجھتا رہا کہ یہ سیاسی لوگ ہیں محض ادیبوں اور دانشوروں کے طبقے کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں مگر خود انہیں بھی پتہ نہیں کہ یہ کتنا اہم کام ہے لیکن میرا یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب نواز شریف نے ٹی ہاؤس کی افتتاحی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ تخلیقی جملہ کہا کہ ان کی پارٹی کے نزدیک ایک پاک ٹی ہاؤس کی بحالی اور میٹرو بس کا اجراء ایک جیسی اہمیت کے منصوبے ہیں، یہ بات کہتے ہوئے میاں صاحب کے ذہن میں یقینا یہ بات ہوگی کہ ٹی ہاؤس دانشوروں کا مسکن ہے یہاں نئے خیالات نشوونما پاتے ہیں اور یوں ساری انسانی ترقی اس قوت متحرکہ کی دین ہے۔ جس کی بنیاد علم و دانش ہے۔
کسی زمانے میں ہر نئی فلم کاافتتاح جمعہ کے روز ہوتا تھا اور فلم بینوں کو یہ مژدہ بڑے بڑے اشتہارات کی صورت میں سنایا جاتا تھا،سو پاک ٹی ہاؤس کی کلاسیکل فلم کا افتتاح بھی جمعتہ المبارک ہی کے دن سے ہوا اور اس روز ادیبوں کے چہرے خوشی سے تمتارہے تھے۔ یہاں انتظار حسین تھے، عبداللہ حسین تھے، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور امجد اسلام امجد تھے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری ،ایرج مبارک اور ناصر زیدی تھے۔ ڈاکٹر یونس جاوید تھے۔ سعودعثمانی تھے، ناصر بشیر تو خیر سارے کاموں میں پیش پیش تھے۔ نیلم بشیر، ڈاکٹر صغرہ صدف اور کراچی سے اپنی زاہدہ حنا بھی شریک محفل تھیں۔ نیئر علی دادا، اصغر ندیم سید ،اورمسعود اشعر اس قدیم تاریخی اور اپنے پرانے مسکن کی بحالی پر خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے علاوہ نجم سیٹھی، جگنو محسن ،مجیب الرحمان شامی، عارف نظامی، سہیل وڑائچ ، الطاف حسن قریشی اور جمیل اطہر بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ پاک ٹی ہاؤس میں صرف ادیب اور دانشور ہی بیٹھک نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مصور، موسیقار اور سیاسی کارکن بھی یہاں محفل جماتے تھے چنانچہ متذکرہ تقریب میں سیاسی کارکن، مصور اور موسیقار بھی اپنے اس ٹھکانے کی واپسی پرفرحاں و شاداں دکھائی دیتے تھے جس کی عدم موجودگی میں وہ دربدر پھرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ سینیٹر پرویز رشید بیک وقت سیاست اور دانش سے وابستہ ہیں۔ شعیب بن عزیز صرف شاعر ہیں اور بے پناہ شاعر ہیں یہ دونوں پاک ٹی ہاؤس کی بحالی کے زبردست خواہشمند تھے سو آج ان کے چہروں کی طمانیت ان کے دلوں کی ترجمان تھی۔ میں یہاں ایک چہرے کو تلاش کرتا رہا جس کے ذمے ٹی ہاؤس کی تزئین و آرائش کا کام تھا اور اس نے بہت دلجمعی کے ساتھ یہ کام کیا۔ اس کا نام عمران خواجہ ہے مگر وہ یہاں نظر نہیں آئے۔
یہ سب لوگ اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے لوگ ٹی ہاؤس کی رونق بحال کررہے تھے لیکن ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، استاد امانت علی، شہرت بخاری، انجم رومانی، قیوم نظر، اشفاق احمد، شہزاد احمد، سہیل احمد، حسن لطیف، اسرار زیدی اور کتنے ہی دوسرے چہرے یہاں نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ سب اللہ کو پیارے ہوگئے ،یہاں جمیل الدین عالی، پروین شاکر، احمد فراز، ممتاز مفتی، جمیل جالبی اور احمد بشیر بھی محفل جمایا کرتے تھے۔ جمیل الدین عالی اور جمیل جالبی بیمارہیں ۔ باقی اپنے مالک حقیقی سے جاملے ہیں۔ میں ان تمام ادیبوں اور دانشوروں کو ان لمحوں میں یاد کررہا ہوں جن کا تعلق پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف ملکوں سے تھا۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ہو جو لاہور آیا ہو اور ٹی ہاؤس میں اس کی آمد نہ ہوئی ہو، انڈیا سے قراة العین حیدر ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی،عرفان صدیقی، بشیر بدر اور دوسرے بہت سے ادیبوں سے ٹی ہاؤس ہی میں ملاقات ہوتی تھی بلکہ دوسرے ملکوں اور شہروں سے آنے والے ادیبوں کو لاہور میں جن ادیبوں سے ملاقات کرنا ہوتی تھی وہ ٹی ہاؤس میں آ بیٹھتا تھا کہ اس نے آخر آنا تو ادھر ہی ہے اور یوں ٹی ہاؤس کی ایک حیثیت ”زیارت گاہ“ کی بھی ہوگئی تھی۔ اس حوالے سے ایک ٹی وی چینل نے مجھے انٹریو کیا تو میں نے کہا”ٹی ہاؤس ادیبوں کے لئے”ویٹی کن سٹی“ کی حیثیت کا حامل تھا فرق صرف یہ کہ یہاں ”زائرین“ کو ایک نہیں بلکہ متعدد ادبی پوپوں کی ”زیارت“ کا موقع مل جاتا تھا، اور ہاں ٹی ہاؤس کی رونق احمد مشاق کے دم قدم سے بھی تھی، مگر ہر دم لاہور کے قصیدے پڑھنے والا یہ شاعر ان دنوں ہیوسٹن میں اپنی زندگی کے دن ہنسی خوشی گزار رہا ہے۔
اور اب آخر میں چند دوسری باتیں ٹی ہاؤس کے منصوبے کا خواب حمزہ شہباز نے دیکھا تھا اور اس کے تکمیلی مراحل لاہور کے خوش ذوق ڈپٹی کمشنر نورالاامین مینگل کے ہاتھوں طے ہوئے۔ حمزہ بہت اچھا نوجوان ہے میں کبھی کبھی اس نے ناراض ہوجاتا ہوں مگر یہ اس کی خاندانی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ تھوڑا سا کسمساتا ضرور ہے مگر ادب اور احترام میں کبھی کمی نہیں آنے دیتا۔ مینگل بھی نوجوان ہے اور یوں ان دو نوجوانوں کی محنت کا ثمر ہم سب کے سامنے ہے۔ سو ان کا شکریہ ہم پر واجب ہے۔ حمزہ شہباز نے ان سارے کاموں میں ادیبوں کو ساتھ رکھا چنانچہ انتظار حسین، نیئر علی داد ،اصغر ندیم سید، یونس جاوید، ایرج مبارک، جاوید اقبال کارٹونسٹ اور راقم الحروف پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے مشوروں کی روشنی میں ٹی ہاؤس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی ہاؤس کی پرانی رونقیں بحال کی جائیں ۔اس ضمن میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہاں چائے اور سنیکس کے ریٹ بہت متوازن ہونا چاہئیں نہ تو اتنے زیادہ ہوں کہ ادیب افورڈ ہی نہ کرسکیں اور نہ اتنے کم کہ ہر کوئی یہاں گھسا چلا آئے۔ یہ مرحلہ تو فی الحال بخوبی طے ہوگیا ہے۔ نوجوان نورالاامین مینگل نے مجھے جو ریٹس میسج کئے ہیں وہ بہت مناسب ہیں ،البتہ ایک نوٹس جو ٹی ہاؤس کے دروازے پر چسپاں نظر آیا وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کے مطابق ٹی ہاؤس صبح ساڑھے دس بجے کھلے گا اور شام ساڑھے سات بجے بند ہوجائے گا یعنی جب ادیبوں کے آنے کا وقت ہوگا اس وقت ٹی ہاؤس کے دروازے ان پر بند ہوں گے مجھے نہیں علم یہ اوقات کس کے مشورے سے طے ہوئے ہیں لیکن یہ بہت مضحکہ خیز ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ریستوران رات بارے بجے سے پہلے بند نہیں ہوتا ،لہٰذا براہ کرم اس ”حکم“ پر نظر ثانی فرمائی جائے۔
تازہ ترین