• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قوم کو داد دینا ہی پڑے گی کیونکہ جس خندہ پیشانی سے انہوں نے پچھلے5 سال کی پی پی پی کی حکومت کو برداشت کیا وہ شاید کوئی قوم نہ کر سکتی۔ یہ آخری ہفتہ چل رہا ہے اور ابھی تک یہ پانچ سالہ مذاق ختم ہونے کو نہیں آرہا۔ چلتے چلتے بھی سب کے منہ پر تھپڑوں کی بارش جاری ہے آخری تحفہ ہمیں سینیٹر قیوم سومرو کی شکل میں ملا ہے، جی ہاں وہی ڈاکٹر سومرو جو بڑی رعونت کیساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا جوتا تین چار لاکھ روپے کا ہے، وہی ڈاکٹر سومرو جن کو مولانا فضل الرحمن نے پرچی پر نوکری دلوائی اور جیل میں چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں اورہر طرح کے قیدیوں کو صحت مند رکھنے پر مامور کیا اور وہیں ان کی ملاقات جناب زرداری سے ہو گئی پھر ایسی خدمت کی کہ خادم اعلیٰ بن گئے اور پھر ہر راز کے امین، جو کام بے نظیر بھٹو کیلئے ناہید خان کرتی تھیں وہ ڈاکٹر سومرو نے زرداری کیلئے سنبھال لیا اور گیٹ کیپر کے فرائض ایوان صدر میں بھی دینا شروع کردیئے یہاں تک کہ انکے اور انکے خاندان کے دن ایسے پھرے کہ کیا لندن اور کیا دبئی وہ رئیسوں کے رئیس ہو گئے اور ان کو آخری دنوں میں ملک کے سب سے بڑے اور مقدم ایوان میں سر پر بٹھا لیا گیا۔ دنیا بھر میں ایوان بالا میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں ساری زندگی کی کامیابیوں کے بعد جو تجربہ اور فہم ملتی ہے وہ ملک کے کام لائی جاتی ہے۔ سینیٹر سومرو بہت تجربہ لے کر آئے ہیں خدمت کرنے کا، جوتے خریدنے کا، مال بٹورنے کا اور اب وہ ہمارے ایوان بالا کو یہ ساری ترکیبیں سکھائیں گے۔ یہ مذاق بھی قوم برداشت کر ہی لے گی کیونکہ ان کا ملک میں موجود ہونا ضروری ہے وہ ایسے ایسے رازوں کو دل میں چھپائے بیٹھے ہیں کہ وقت پڑنے پر یہ راز ملک کے لیڈروں اور رہنماؤں کے بارے میں مسعود محمود کی طرح یا آنے والے توقیر صادق کی طرح جو کچھ پانچ سال میں ہوا اسے کھولیں گے۔ مذاق تو یہ ہے کہ لیڈرNRO کر کے بچ جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ڈاکٹر سومرو پکڑے جاتے ہیں۔ ان کا ملک میں رہنا یوں بھی ضروری ہے کہ باقی جو اس پانچ سال کے دور کے مگرمچھ ہیں وہ تو ایک ایک کر کے کھسک ہی رہے ہیں کوئی الطاف بھائی سے ملنے دوڑ پڑے گا اور کسی کو عالمی بینک سے اہم مذاکرات کا بھاری بوجھ دیکر امریکہ جانے کی ذمہ داری دی جائیگی دوسرے چھوٹے دبئی اور لندن میں چھٹیاں گزاریں گے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ لوگوں کو عبرت کی مثال بنانے کا پورا پروگرام تیار ہے اس لئے اب کون کس کی گرفت میں آتا ہے اپنی اپنی قسمت ہے۔ آخری دنوں میں جو کام وزارت خزانہ میں ہو رہا ہے تھوڑے ہی دنوں میں عدالت عالیہ اس پر غور کر رہی ہو گی کیونکہ اتنیECC کی میٹنگیں پورے سال میں حفیظ شیخ نے شاید ہی کی ہوں جتنی جناب مانڈوی والا نے دو ہفتوں میں کر ڈالیں اور ہر اس اسکیم کو پاس کر دیا جو حفیظ شیخ کبھی نہ کرتے۔اب اگر جناب شیخ عبوری وزیراعظم بن گئے تو کیا وہ ان تمام فیصلوں پر قائم رہیں گے جو دو ہفتوں کے وزیر خزانہ کر رہے ہیں انہوں نے تو اگلے بجٹ اور پانچ سال کا روڈ میپ بھی چند دن میں تیار کر لیا ہے۔ روڈ میپ توکئی دوسرے بھی تیار ہیں عدالتیں اس ہفتے بھاری بھرکم کیس سنیں گی جن میں میمو گیٹ اور NICL بھی شامل ہیں۔ کراچی کی صورتحال پر حکومت کے جانے کے بعد غور ہوگا اور فوج کی گہری تشویش کے بعد اب ناگزیر ہے کوئی دوسرا حل یعنی فوج کے حوالے کراچی کرنا ہی پڑے گا۔ ادھر افواہیں زوروں پر ہیں کہ متحدہ کی صورتحال دگرگوں ہے اورمبینہ طور پر الطاف بھائی کی صحت اور دوسرے مسائل کی وجہ سے لوگوں میں بہت خوف ہے کہ کہیں متحدہ والے آپس میں نہ بھڑ جائیں اور کراچی کی گلیاں سڑکیں اور محلے ایک دوسرے پر نہ جھپٹ پڑیں۔ شاید اس لئے گورنر عشرت العباد کو پنڈی، لندن اور الطاف بھائی نے مل کر واپس بلا لیاہے کیونکہ وہ ایک consensus figure بن چکے ہیں اور سب کو اعتماد ہے کہ وہ حالات کو سنبھال سکتے ہیں مگر لگتا ہے گورنر اب متحدہ کے بل بوتے پر نہیں بلکہ دوسرے Power centres کے نمائندے کے طور پر راج کریں گے۔ ایک ایسی شخصیت توسب کو ہی چاہئے وگرنہ کراچی اگر پھٹ پڑا تو سارے الیکشن اور جمہوریت کے پلان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے جس طرح پچھلے ہفتے متحدہ کو دو گھنٹوں میں اپنی ہڑتال کی کال واپس لینے پر مجبور کیا گیا اور خود برطانیہ کے سفارت کار بھاگے بھاگے گورنر ہاؤس پہنچے اور جنرل کیانی بھی پریشان حال دکھائی دیئے، لگتا ہے متحدہ اور الطاف بھائی پر خاصا دباؤ ڈالا گیا اور اس نے کام بھی کیا سو اب کراچی کی صورتحال کو برطانیہ والے ریموٹ سے کنٹرول کریں اور کیوں نہیں کیونکہ سارا امریکہ اور نیٹو کا اسلحہ کراچی کے ذریعے ہی واپس جانا ہے جس کی ترسیل شروع بھی ہو چکی ہے سو اب وزارت پورٹس اور شپنگ جو ہمیشہ متحدہ کے پاس ہوتی تھی ذرا کھسکتی نظر آ رہی ہے۔ متحدہ نے پچھلے ہفتے کراچی کی بندرگاہ اور ایئرپورٹ چند گھنٹوں کے نوٹس پر بند کر کے شاید اپنے ساتھ زیادتی کی۔
چلتے چلتے آخری ہفتے میں اور بھی کئی مذاق نظر آئیں گے۔ وزیراعظم کا اجمیر شریف کا مذاق جو پوری قوم کا مذاق اڑا گیا، فخرو بھائی کی ناتوانی اور ان کے کندھوں پر بوجھ بھی اب مذاق لگ رہا ہے اس لئے کہ کسی صورت وہ انصاف کر ہی نہیں سکتے۔ کیوں وہ اپنے اور قوم پر ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں، وہی بتائیں گے لیکن لگتا ہے وہ حکومت کے آخری ہفتہ کے بعد ضرور سوچیں گے کہ انہیں یہ بوجھ اتار دینا چاہئے۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے دو اور ممبر بھی شاید ان کے ساتھ الیکشن کمیشن کو خیرباد کہہ دیں تو پھر ایک نیا کمیشن ہی بنانا پڑے گا اور اب تو دو ممبر بیان بھی دے چکے کہ وہ شفاف انتخابات نہیں کراسکتے تو اب کیاہوگا!! انتظار تو بے شمار لوگوں کو ہے کہ جیسے ہی یہ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کر کے رخصت ہوتی ہے انکے رنگ ہی بدل جائیں گے اور کئی مسعود محمود سامنے آنے لگیں گے۔ کیا کیا گل کھلتے ہیں ان پانچ سالوں کے چلتے چلتے دیکھتے جائیں۔
پچھلے ہفتے دبئی میں اچانک عمران خان سے ملاقات ہو گئی، خان صاحب ایک دن کیلئے آئے ایک پرائیویٹ تقریب میں کئی لاکھ ڈالر وصول کئے اور ایک شاندار ڈنر میں شریک ہوئے جہاں دبئی کے یقیناً مالدار لوگ ہی شامل تھے جب میں باہر نکلا تو کوئی 20 رولز رائس گاڑیاں، بیشمارجاگوار، BMWS، مرسیڈیز اور Lexus کھڑی تھیں۔ لگتا تھا دبئی والے جناب خان صاحب کو آتا دیکھ رہے ہیں۔ جب ان سے بات ہوئی تو وہ خود بھی بہت پُراعتماد اور Excited نظر آئے۔ کہنے لگے میں نے تمام ”بابوں“ کو ٹھنڈ کرا دی ہے یعنی اچھا ہوا کہ Electable کے چکر سے میری پارٹی نکل گئی اور اب جب یہ نئی منتخب قیادت کو میں ایک جنونی جذبے کے ساتھ میدان میں لاؤں گا تو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی الیکشن مہم کو بھول جائیں گے۔ 23 مارچ کو انہوں نے لاہور آنے کی دعوت دی اور کہا دیکھنا کیا رنگ نکھرتا ہے 80 ہزار لوگ تو صرف حلف اٹھائیں گے اور پھر چل سوچل کوئی ٹھہر نہیں سکے گا، جنون کے سامنے۔
عمران خان سے میں نے پوچھا اگر انتخابات ملتوی ہو گئے تو کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہو گا۔ سوچ کر بولے ہمیں تو فائدہ ہی ہوگا لیکن جس دن پنجاب کی حکومت ہٹے گی ایک طوفان ہماری طرف آئیگا اور وہ سارے لوگ جو ابھی کسی وجہ سے ساتھ نہیں آرہے وہ ادھر ہوں گے۔ خان صاحب کے ساتھ جہانگیر ترین صاحب بھی آئے تھے ان سے جب پوچھا کہ کیا آپ ان لوگوں میں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ امیر لوگوں نے عمران خان کو گھیر لیا ہے تو ہنس کر بولے کیوں نہ اس صورتحال کو ایسے دیکھیں کہ ہم نے عمران خان کو کئی دوسرے شکنجوں سے آزاد کرا لیا ہے۔ خود عمران اور ترین دونوں کا خیال تھا کہ میڈیا کے لوگوں پر بھاری رقوم لگائی گئی ہیں اور وہ نظر آنا شروع ہوگئی ہیں جب تفصیل پوچھی تو دونوں نے لب سی لئے، اچھا ہی کیا۔
تازہ ترین