• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں، میں اپنے مراکش کے دورے سے وطن واپس لوٹا ہوں۔ دوران سفر طیارے میں میری نظر ایک غیر ملکی اخبار میں شائع ہونیوالے دلچسپ آرٹیکل "Halal-FriendlyTravel" پر پڑی جس کی معلومات میں آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ حلال فوڈ اور اسلامی بینکنگ کے بعد دنیا اب مسلم مسافروں اور سیاحوں کی اربوں ڈالر کی مسلم ٹریول مارکیٹ کے بزنس کو فوکس کررہی ہے کیونکہ دنیا میں ابھی تک ہوٹلوں ،ایئر لائنز اور ٹور آپریٹرز نے مسلم سیاحوں کو ان کی ضروریات کے مطابق خاطر خواہ سہولتیں فراہم نہیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں OIC کے اسلامک فنانس کے سربراہ رشدی صدیقی اور مسلم طرز زندگی ٹریول مارکیٹ اسٹیڈی کے مطابق2012ء میں مسلم ٹریولرز نے ٹریولنگ پر130/ارب ڈالر خرچ کئے جو دنیا کی مجموعی ٹریولنگ کا 13% ہے اور یہ 2020ء تک بڑھ کر 200/ارب ڈالر ہوجائینگے۔ ان ٹریولرز میں ملائیشیا، ترکی اور عرب امارات سرفہرست ہیں۔ اسکے علاوہ سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، کویت، مصر، قطر، امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے مسلم ٹریولرز قابل ذکر ہیں جن کی اہم ضروریات میں کھانے پینے کی حلال اشیاء کی دستیابی، نماز کی ادائیگی کیلئے سہولتیں، مسلم بیت الخلاء اور ان کی رہائش کے اردگرد غیر اخلاقی سرگرمیاں کا نہ ہونا شامل ہے لیکن ان میں سب سے اہم ایئر لائنز اور ہوٹلوں میں حلال فوڈ کی دستیابی ہے۔
اس سے پہلے میں ”حلال فوڈ“ پر کئی آرٹیکلز لکھ چکا ہوں جس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں حلال اشیاء کے تصور کو اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے۔ورلڈ حلال فورم کی حالیہ تحقیق کے مطابق بین الاقوامی سطح پر 2009ء میں حلال فوڈ کی مارکیٹ 632/ارب ڈالر کی تھی جبکہ حلال انڈسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کی حلال مارکیٹ ایک ٹریلین ڈالر سے لے کر 2 ٹریلین ڈالر سالانہ تک کی ہے۔ یورپ میں حلال مارکیٹ کا بزنس تقریباً 66/ارب ڈالر، فرانس کا 17/ارب ڈالر سے زائد اور برطانیہ میں 600 ملین ڈالر کا حلال گوشت سالانہ فروخت کیا جاتا ہے۔ امریکی مسلمان تقریباً 13/ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر صرف کرتے ہیں جبکہ خلیجی ممالک کی حلال فوڈ کی درآمدات سالانہ تقریباً 44/ارب ڈالر کی ہیں۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت21/ارب ڈالر سالانہ جبکہ انڈونیشیا جو بہ لحاظ آبادی دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے میں حلال فوڈ کی درآمدات70/ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح برازیل سے ایک ملین حلال منجمد چکن 100 سے زائد ممالک کو برآمد کئے جانے کے علاوہ اس کا 3 لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب، خلیجی ممالک، مصر اور ایران کو برآمد کیا جاتا ہے۔ ہر سال فرانس سے ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی فوڈ کی برآمد میں حلال بیف کی برآمدات 80% ہیں۔ نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹرز ہے اور اسکی حلال بیف کی برآمدات 40% ہیں۔ حلال فوڈز کی مارکیٹ میں وسعت کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کی قوت خرید کا ماضی کے مقابلے میں بڑھنا ہے۔ پندرہویں صدی میں ایشیائی ممالک کا دنیا کی جی ڈی پی میں حصہ 60% تھا جس میں چین کا حصہ 25%، برصغیر کا 25% اور بقیہ 10% حصہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے ممالک کا تھا۔
حلال فوڈ سے مراد محض چکن اور بیف ہی نہیں بلکہ حلال فوڈ میں سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم حتیٰ کہ چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہیں جن کی تیاری کے عمل کے دوران استعمال کئے جانے والے تمام کیمیکلز اور Additives میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو۔ حلال ایک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر یا عمل شامل نہیں کیا گیا ہو۔ دراصل دنیا میں گوشت کے علاوہ کھانے پینے اور استعمال کی جانے والی اشیاء میں بہت سے حرام عنصر استعمال کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اشیاء حلال نہیں رہتیں جن کا بحیثیت مسلمان ہمارے لئے جاننا نہایت ضروری ہے۔دنیا میں حلال فوڈز کے اسٹینڈرڈز اور سرٹیفکیشن کے موضوع پر کراچی میں ایک سیمینار جس کا اہتمام پاکستان میں حلال فوڈز متعارف کرانے والے اسد سجاد نے کیا تھا میں شریک ملائیشیا کے IHIA کے سربراہ درہم دلی ہاشم سے میں نے سوال کیا کہ پانی کس طرح حلال یا حرام ہوسکتا ہے تو انہوں نے وضاحت کی کہ منرل واٹر جسRO پلانٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی کچھ آمیزش بھی کی جاتی ہے جو کئی ذرائع سے حاصل کی ہوتی ہے جس میں ایک ذریعہ ہڈیاں بھی ہیں۔ اگر یہ ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہیں تو یہ پروسیس حلال کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح چاولوں کی پولشنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکلز میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جو حرام اشیاء سے حاصل کیا گیا ہو۔ لیدر مصنوعات اور ڈینم جینز بنانے میں متعدد کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ سور کی چربی سے حاصل کئے جاتے ہیں جن کو جانتے ہوئے استعمال کرنے کی صورت میں شرعی اعتبار سے ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔ اسی طرح پرفیومز میں الکوحل ایتھانول عموماً استعمال کیا جاتا ہے جو حلال نہیں اور اس کو لگاکر عبادت کرنا ممنوع ہے۔ اسی طرح اگر فنانسنگ کیلئے بینکنگ کا سودی نظام استعمال کیا جارہا ہے تو یہ یقیناً حلال نہیں ہے۔ حلال سرٹیفکیشن کرتے وقت پروڈکٹ اور اسے بنانے کے پروسیس دونوں کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی گئی تو اس کا حلال سرٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی ممالک کو کپڑے اور ٹیکسٹائل کی بہت سی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں، اگر ہم ان مصنوعات کی حلال سرٹیفکیشن کے ساتھ مارکیٹنگ کریں تو یہ اسلامی ممالک کو اچھی قیمت پر فروخت کی جاسکتی ہیں۔ ہم نے اپنے حلال برانڈ کو باہمی تجارت میں کوئی اہمیت نہیں دی جبکہ چین، یورپ اور امریکہ اسلامی ممالک میں حلال فوڈ برانڈ متعارف کروا کے ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں عمرے اور حج کے دوران اربوں ڈالر کی تسبیحاں، جائے نماز اور ٹوپیاں وغیرہ چین سے درآمد کی جاتی ہیں جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔حلال مصنوعات حفظان صحت کے مطابق اپنی کوالٹی کی وجہ سے معروف ہیں اس لئے ان کی طلب صرف مسلمان صارفین تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی حلال اشیاء خریدتے ہیں۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے ترقی پذیر حلال مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصے کیلئے کوشاں ہیں۔ حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کا اسٹینڈرڈ انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے غیر مسلم ممالک بشمول چین، تھائی لینڈ، فلپائن، فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکہ میں نافذ العمل ہے۔ اس وقت دنیا کے 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زائد ادارے ہیں۔ پاکستان میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں نے یمن میں مسلم ہیلتھ ٹورازم کو متعارف کرایا اور اس وقت پاکستان میں تقریباً 100 سے زائد یمنی طالبعلم میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں جو ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے ملک میں پاکستان میں صحت کی سہولتوں کے بارے میں ہمارے بہترین ترجمان ہیں اور ان کی بدولت اب کئی یمنی خاندان علاج کیلئے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان آنے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق پاکستان میں یورپ اور عرب ممالک کے مقابلے میں علاج نہایت سستا اور اسلامی اقدار کے مطابق ہے لہٰذا ہمیں مسلم امہ کی اتنی بڑی مارکیٹ کے پوٹینشل کو مدنظر رکھتے ہوئے ”حلال پاکستان برانڈ“ کو مسلم امہ میں ایک موثر حکمت عملی کے تحت متعارف کرانا ہوگا۔
تازہ ترین