• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ کے دو بم دھماکوں جن میں 169کے قریب افراد شہید ہوئے اور پھر عباس ٹاؤن کراچی کے واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ کرنل پیٹررالف کے منصوبے کا کام زور شور کے ساتھ جاری ہے، ان کے منصوبہ کے تحت جو انہوں نے اپنی کتابوں ”جنگ کرنے سے کبھی باز نہ آوٴ“ اور ”خونی جنگ اور مذہب“ میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ، جس میں پاکستان کو شامل کیا گیا ہے کے شطرنج کی بساط پر تمام پیادے بٹھا دیئے گئے ہیں اب صرف خونریزی کا مرحلہ باقی رہ گیا ہے۔ سو وہ شام سے شروع ہو کر ایران اور پاکستان کو اپنے احاطے میں لینے کو تیار ہے۔ ایران نے خونریزی پر قابو پا لیا ہے مگر پاکستان میں فرقہ واریت پر مبنی خونریزی کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں موجود مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت اغیار کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس سطح پر نہیں آسکی ہے کہ وہ شام کے طرز پر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے مگر اُن کے مہرے یہ کام کرانے میں پوری استعداد صرف کررہے ہیں جبکہ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے بنانے میں پاکستان میں موجود تمام فرقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور وہ کسی خانہ جنگی کے مقام تک نہیں جائیں گے، ایک چھوٹی سی اقلیت جس کو طاغوتی طاقتوں نے عراق ایران جنگ کے بعد مسلح کیا تھا اور پیسوں کی بارش کر رکھی تھی جو بعد میں وہ انڈیا کی ایجنسی ”را“ سے مل گئی، یہ کوشش ضرور کررہی ہے۔ نئے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے چاہے کسی بھی تناظر میں یہ بیان دیا ہو کہ انڈیا کے پالتو جنگجو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کو تیار بیٹھے ہیں تاہم انڈیا کی سازش منظرعام پر ضرور آگئی۔ کرنل پیٹررالف کے منصوبے کے تحت پاکستان سے لیکر مصر تک تمام اسلامی ممالک کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تبدیل کرنا ہے اور عظیم تر اسرائیل کے تصور کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ وہ اُن ملکوں کو پہلے ہدف بنائے ہوئے ہیں جو وسعت و آبادی کے اعتبار سے بڑے ہیں یا فوجی اعتبار سے مضبوط ہیں، جیسا کہ عراق، شام، مصر، ایران اور پاکستان ۔ایران میں کام کرنا آسان نہیں ہے مگر پاکستان میں کام کرنا آسان ہے اس لئے انہوں نے پاکستان میں خون کی ندیاں بہانا شروع کردی ہے۔ شام میں تو خون کا دریا بہایا جارہا ہے۔ شام کا معاملہ ہی دیکھیں کہ وہاں کس طرح انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ جہاں ایک لاکھ بتیس ہزار افراد خانہ جنگی میں لقمہ اجل بن چکے ہیں، چالیس ہزار نقل مکانی کرچکے ہیں اور تقریباً 45 لاکھ افراد امداد کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑا کام ان طاغوتی طاقتوں نے یہ کیا ہے کہ یہاں نظریاتی فوج کو ہدف بنایا۔ اُس کو چاروں طرف سے جنگ میں مصروف رکھا ہوا ہے تاکہ وہ ملک کی لاقانونیت جس کی سطح انارجیت کے قریب پہنچ گئی ہے، وہ کوئی کردار ادا نہ کرسکے یا پھر سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اُسکے فیصلے کرنیوالے اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ فیصلہ ہی نہیں کرتے اور شاید انہوں نے بغیر لڑے شکست تسلیم کرلی ہے جو عین بزدلی ہے، جو لڑاکا لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ ہم نہتے نہیں گھبرائے اور نہ ہی مایوس ہوئے تو یہ کیوں مایوس اور دل شکستہ ہوتے ہیں۔ اغیار کے دانشور یہ کہتے ہیں کہ جنگ سے کبھی باز نہیں آنا اور ایک ہم ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔
عمران خان کی کوشش ناکام ہوئی تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک رائے یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایک جائز اور عوامی کوشش کا اظہار تھا دوسری رائے یہ ہو سکتی ہے کہ ایک کوشش اداروں نے کی تو دوسری اغیار نے مگر پاکستانی عوام میں اُن کو پذیرائی نہیں ملی۔ اب یہ خوف غالب ہے کہ جس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں جیسا کہ کوئٹہ میں قتل و غارت گری یا کراچی میں نشانہ باندھ کر مارنا، یہ ہمیں کسی ایسے واقعے سے متعارف کرا سکتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوں اور جو بالآخر الیکشن کو ملتوی کرانے کا سبب بنے۔ مجھے یاد ہے کہ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد حکومت انتخاب کرانا چاہتی تھی اور انڈیا یہ چاہتا تھا کہ یہ انتخاب نہ ہوں مگر خود آئی ایس آئی کے ایک افسر نے حیدرآباد میں 30 ستمبر 1988ء کو اپنے قوم پرست کارندوں کے ذریعے قتل عام کرایا اور الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کی۔ میں نے جب یہ الزام آئی ایس آئی پر لگایا تو جنرل حمید گل جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ میں الیکشن کرانا چاہتا ہوں اور انڈیا یہ کام کرنے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ تو میں نے اُن سے کہا تھا کہ آپ اپنے گھر کی خبر لیں۔ میں نے اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان سے حیدرآباد کی آمد پر تمام انتظامیہ کی موجودگی میں حیدرآباد کی انتظامیہ جو اس واقعے کو روکنے میں ناکام ہوگئی تھی یا پھر وہ آئی ایس آئی کے طاقتور آپریٹر کی وجہ سے مجبور تھی کو بدلنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر وہ لوگ مجھے آج بھی دشنام دیتے ہیں کہ میں نے اُن کو بلاوجہ ہٹانے کا مطالبہ کیا، اب300/افراد مار دیئے جائیں اور انتظامیہ کو ہٹانے کا مطالبہ بھی نہ کروں، یہ تو ایسا ہی ہے کہ کٹ کر مر جاوٴں مرضی مرے صیاد کی ہے، میں نے ایسا نہیں کیا اور نہ آج کسی کو خاطر میں لائے بغیر اور پاکستان کو سامنے رکھ کر یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمیں مذہب، سیاسیات، اخلاقیات، نظریات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم نہ صرف مقابلہ کریں بلکہ انہیں شکست دیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اپنے ملک کو بچانے کے لئے کسی نظام یا کسی فلسفہ کے تابع نہیں ہر وہ طریقہ جو اس کو بچانے، محفوظ کرنے، عوام کو راحت پہنچانے، امن و امان قائم کرنے، سب کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لئے اور اس ملک کو مثالی ملک بنانے کے لئے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرنے سے گریز نہ کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے۔ آیئے ہم مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ نواز شریف اچھے انسان ہیں، اُن کو بھی سمجھنا چاہئے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کو بچانے کے لئے کسی کوشش یا کسی قربانی یا کسی عملی مظاہرہ کرنے میں ایک لمحہ کے لئے بھی گریز نہیں کریں گے ورنہ ہمارا ملک انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ استاد اول افلاطون کے نزدیک انتشار سے ملوکیت بہتر ہے کہ اس میں کچھ نظم تو ہوتا ہے۔ انارجیت میں تو جس کی لاٹھی اُس کا پھنس والا معاملہ ہے مگر میں ملوکیت کا پرچار نہیں کر رہا ہوں، البتہ پاکستانیوں اور ان کی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو وقت سے پہلے آگاہ کر رہا ہوں کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے سے روکنا چاہئے کہ صورتحال ہی یکسر بدل دے۔ اغیار ہمارے ایٹمی پروگرام کے پیچھے ہے، وہ انتشار پھیلاکر، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو خطرے میں ہونے کا پروپیگنڈا کرکے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے پاکستان کے خلاف قرارداد پاس کراسکتا ہے، اسلئے چوکنا رہتے ہوئے کسی بڑے واقعے کے رونما ہونے کی سازش کا سدباب کیا جائے۔
تازہ ترین