• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی معیشت کے حقیقی مرکز کراچی میں کیا ہورہا ہے۔ آگے کیا ہوگا، یہ سوال اس وقت پاکستان اور بیرونی دنیا کے سرمایہ کار ٹیلی فون کالوں اور دیگر ذرائع سے اسلام آباد کے حکام اور کراچی کے عوام سے پوچھ رہے ہیں۔ سب کا جواب مل رہا ہے کہ کچھ پتہ نہیں کراچی میں آگ و خون کا کام کب ختم ہوگا۔ دوسرا یہ کہ یہ سب جمہوریت کے ثمرات ہیں جس کے بارے میں حکمران جماعت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ پورے ملک میں بدامنی ،کرپشن، بدانتظامی اور مارا ماری کی انتہا ہوگئی ہے۔ سارے ملک میں بجلی گیس کے بحران، پٹرول اور کھانے پینے کی اشیاء کی گرانی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے رجحان نے سب کو پریشان اور بے حال کررکھا ہے۔ ایسے لگتا ہے قانون کی حکمرانی اور معاشی انصاف ہم سے دور ہوتا جارہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں جاتے جاتے زیادہ سے زیادہ منصوبوں کے افتتاح کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ منصوبے کب اور کیسے مکمل ہونگے یہ کسی کو بھی پتہ نہیں ہے، اس لئے کہ آنے والے حالات کی خبر صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ وفاقی حکومت نے جاتے جاتے ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ اور چین کو گوادر دینے کا فیصلہ عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے کیا ہے۔ ان منصوبوں کے مستقبل کا فیصلہ نئے حکمران کرسکیں گے جنہیں اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے امریکہ کے راستے اسلام آباد آنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت تک حالات میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی سپورٹ میں جارہے ہیں لیکن اصل صورتحال تو الیکشن کے چوبیس گھنٹے بعد ہی واضح ہونا شروع ہوگی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کردیا جائے کہ چونکہ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور قدرے بہتر گورننس کے حوالے سے اطمینان بخش رہی ہے اس لئے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی صورت میں انہیں وزارت عظمی دلوادی جائے اور محترم میاں نواز شریف کو بادشاہ گر بنانے کے لئے تجویز کردیا جائے۔ اس طرح کی سوچ صدر پرویز مشرف کے دور کے ابتدائی عرصہ میں بھی زیر بحث آئی تھی مگر دونوں بھائیوں کے ا تفاق نے فیملی میں نفاق پیدا نہیں ہونے دیا تھا۔ اب تو ”اتفاق“ اتفاق نہیں رہی دونوں خاندانوں کے بچے بڑے اور سمجھدار ہوچکے ہیں اور کئی فیصلے اب اپنی اپنی سطح پر ہوتے رہتے ہیں۔
بہرحال اگر میاں شہباز شریف کے لئے پی ایم کا عہدہ تجویز کیا جاتا ہے تو اس میں ان کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو عالمی سطح پر سراہنے کے اقدامات کا بھی دخل ہوگا جس میں میٹرو بس کا منصوبہ قابل ذکر ہے۔ اپوزیشن سمیت کئی حلقوں کی طرف سے اس پر تنقید بھی ہورہی ہے۔ جن کے کئی نکات صحیح بھی کہے جاسکتے ہیں۔ شاید اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے جرمنی کے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کے پاکستانی حکام کو اس منصوبے کی مکمل چھان بین کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ سیاسی اور جمہوری دور میں کسی عالمی ادارے کو ایسی پیشکش کی جائے ۔ یہ ادارہ اپنے کئی پراجیکٹ اور سروے آؤٹ سورس بھی کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کی کرپشن کے بارے میں لاتعداد شکایات کو”اوپن“ کرنے کا سہرا اس ادارے کے سر ہے جس کے موجودہ مشیر اور سابق کنٹری ہیڈعادل گیلانی کو حکومتی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کا غیر اعلانیہ(حامی) قرار دیا جاتا ہے۔ دو دہائی قبل یہ ادارہ جرمنی میں قائم ہوا جواب ملٹی نیشنل بن چکا ہے اور دنیا بھر میں اس کے دفاتر ہر ملک کے کرپشن اور بے قاعدگیوں کے بارے میں چھان بین کرکے ایسے ہی جامع رپورٹیں شائع کرتے ہیں جیسے کسی زمانے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل یا بین الاقوامی انسانی حقوق مشن کرتا تھا۔ بہرحال پنجاب حکومت کی اس پیشکش کو قومی سطح پر پذیرائی ضرور ملی ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ صرف 36ارب روپے نہیں پنجاب کے پورے پانچ سالہ بجٹ اور خاص کر ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ایسا معاہدہ کیا جاتا تو اس سے اسے آئندہ الیکشن میں ان کی توقعات سے بھی زیادہ ووٹ مل سکتے تھے اور نواز شریف فیملی کو”اسلام آباد“ واپس رہنے میں حائل کئی رکاوٹیں اور مسائل خود بخود حل ہوسکتے تھے۔ اس لئے کہ آئندہ الیکشن”الزام تراشی“ کے پس منظر میں ہوں گے ہر پارٹی ایک دوسرے پر الزامات لگائے گی جس سے عوام میں مایوسی بھی بڑھ سکتی ہے اور شعور بھی آسکتا ہے کہ وہ موروثی سیاست اور اس پر خاندانوں کی بالا دستی کی حوصلہ شکنی کریں۔ اس لئے آئندہ حکمران یہ سوچ لیں کہ اب ان کا کام نعروں سے نہیں عملی طور پر کام کرنے سے چلے گا۔ اس لئے کہ موجودہ حکومت نے عوام کو جمہوریت کے نام پر معاشی پریشانیوں کے بے پناہ تحفے دئیے ہیں جس میں دہشتگردی ،افراط زر، غیر یقینی صورتحال سے سرمایہ کاری میں مسلسل کمی، انرجی بحران، بدانتظامی، کرپشن، قومی اداروں کی تباہی کے علاوہ ڈالر کی قیمت جو2007ء میں60روپے اور2008ء میں 68روپے تھی وہ اب98روپے پر چلی گئی ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے ریڈار سکرین پر معاشی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہوتے جارہے ہیں۔ خسارے میں جانے والے اداروں کی نج کاری نہ کرکے انہیں 400ارب روپے کی سپورٹ قومی وسائل کے ضیاع کے زمرے میں قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا جی ڈی پی گروتھ 2007ء میں6.8فیصد سے کم ہو کر اب 3.7فیصد کے قریب ہوچکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 15.6ارب ڈالر سے کم تر سطح پر بتائے جارہے ہیں ۔سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور سٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر یسیٰن انور کے درمیان اس حوالے سے کئی اختلافات کا تذکرہ عام ہے۔ حکومتی حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ معاشی کارکردگی کے حالات اتنے بھی برے نہیں ہیں اس دور میں ایف ایف سی ایوارڈ آیا لاتعداد بے روزگار خاندانوں کو بحال کیا گیا کئی منصوبوں پر کام شروع کیا گیا اگر حکومت کے یہی دعوے ہیں تو وہ پنجاب کی طرح آگے بڑھیں اور اپنے دور کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کیلئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نہ سہی کسی اور عالمی ادارے کو پیشکش کردیں سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا ورنہ الیکشن تو آنے ہی والے ہیں اس میں بھی کئی فیصلے ان کی توقعات کے برعکس ہوسکتے ہیں۔
تازہ ترین