• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے شہرِ قائد میں ٹرانسپورٹ مسائل کے حل کیلئے 1961میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا تاہم اُس وقت کے ٹرانسپورٹ مافیا نے اِس سہولت کو اپنی من مانیوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے ریلوے کے بدعنوان عملے اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے سرکلر ریلوے کو ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن جتن کئے۔ 

گاڑیوں کے مقررہ اوقات میں خلل ڈالنے سے لے کر انجنوں کے پرزے اور ڈبوں میں نصب آلات کی چوری، پٹریوں کو نقصان پہنچانے، علاقائی ریلوے اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ تک کی گئی۔ 

ریلوے انتظامیہ پر کرایوں میں اضافہ کرنے اور سرکلر ریلوے کا دائرہ کار نہ بڑھانے کیلئے دبائو ڈالا گیا، پٹریوں کو نقصان پہنچا کر تجاوزات تعمیر کردی گئیں۔ اس طرح یہ سہولت محکمے کی لاپروائی اور ٹرانسپورٹ مافیاکی سازشوں کی بدولت 1999میں مکمل طور پر بند کر دی گئی، تاہم دس سال بعد ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل کے سبب حکومتِ پاکستان نے جاپانی حکومت سے تعاون طلب کرتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے کو از سرِ نو بحال کرنے کی منظوری دی۔ 

اس مقصد کے لئے جاپانی حکومت سے طویل مذاکرات ہوئے، باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ جس کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کی زمین کو قابضین سے مکمل طور پر عالمی اصولوں کے مطابق خالی کرانا شامل تھا جبکہ یہ منصوبہ مکمل طور پر جاپانی امداد اور تعاون سے مکمل ہونا تھا۔ 

کراچی سرکلر ریلوے بحالی پراخراجات کا تخمینہ 1.53ارب امریکی ڈالر تھا جو بعد میں بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس منصوبے کے لیے جاپان بینک آف انٹرنیشنل کوآپریشن JICAکی جانب سے آسان قرض کی صورت میں سرمایہ فراہم کیا جانا تھا جبکہ منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ پہ دونوں ممالک کے ماہرین کام مکمل کر چکے تھے۔ اس منصوبے پر کام 2010میں شروع کرکے 2014تک مکمل کیا جانا تھا۔ 

منصوبے کی تکمیل کے بعد یومیہ سات لاکھ مسافراس سفری سہولت سے مستفید ہوتے۔ جاپان چاہتا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے پر کام جلد از جلد شروع ہو جائے مگر اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ 1999میں جب سرکلر ریلوے مکمل طور پر بند ہوئی تو اس کے ٹریک کے قریب جو پہلے سے ہی ناجائز قابضین موجود تھے مزید توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ آگے بڑھے اور سرکلر ریلوے کی تمام زمین لینڈ مافیا کے قبضہ میں چلی گئی۔

ریلوے ٹریک کی دونوں جانب کچی آبادیوں کی موجودگی میں اس ٹریک پر دوبارہ سروس کی بحالی تقریباً ناممکن تھی۔ 

قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ کی منظوری تو دے دی لیکن زمینی حقائق اس منصوبے پر عمل درآمد سے متصادم تھے۔ 

تاہم منصوبے کی تکمیل میں مجرمانہ تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سرکلر ریلوے کی زمین کو نوے فیصد خالی کرا لیا گیا جس کے بعد امید ہے کہ یہ منصوبہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں مکمل ہو سکے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی کل لمبائی 50کلومیٹر رکھی گئی۔ 

جاپان کے سرکاری ادارےJETROکی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کو دو حصوں میں مکمل کیا جانا تھا پہلے حصے میں 28.3کلومیٹر کی ریلوے لائن کراچی کینٹ سے گلستانِ جوہر تک بچھائی جانی تھی جبکہ دوسرے حصے میں 14.8کلومیٹر کی ریلوے لائن گلستانِ جوہر سے لیاقت آباد تک جبکہ 5.9کلومیٹر لائن ڈرگ روڈ سے جناح ایئر پورٹ تک بچھائی جانی تھی یہ لائن زمین کے اندر یا پھر برج کی شکل میں زمین کے اوپر ڈالی جانی تھی۔ 

سرکلر ریلوے کیلئے JICAآسان شرائط پر قرضے کی صورت میں جو سرمایہ کاری کر رہی تھی یہ لون 40سال میں واپس کرنا تھا۔ منصوبے میں شہر میں 19انڈر پاس، تین اوور ہیڈ برج اور مکمل کمپیوٹرائزڈ ٹکٹنگ نظام کے حامل 23اسٹیشن کی تعمیر بھی شامل تھی۔ 

کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کراچی کے عوام کے لئے نہایت مفید تھا اس سے ٹرانسپورٹرز کی بلیک میلنگ کے خاتمے کیساتھ ساتھ عوام سستے کرائے میں جلد منزل پر پہنچ سکتے تھے لیکن اس لاوارث شہر کراچی کے لیے شروع ہونے والا منصوبہ اپنی شروعات سے قبل ہی سرکاری کاغذوں میں دفن ہو گیا تھا۔ 

بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس کے حکم پر پہلے تو قبضہ مافیا سے کے سی آر کی زمین خالی کرائی گئی اور اب ایک نئے حکم میں وفاقی اور سندھ حکومت کوجو علاقے تاحال زیر قبضہ ہیں انھیں خالی کرانے اور فوری طور پر کراچی سرکلر ریلوے شروع کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ 

جاپانی حکومت تو شاید اس منصوبے سے دستبردار ہو چکی تاہم پاکستانی حکومت اس منصوبے کو سی پیک منصوبے میں شامل کرکے جلد از جلد مکمل کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ 

دعا ہے کہ حکومت خلوصِ دل سے یہ منصوبہ مکمل کرے تاکہ کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام بھی ٹریفک کے شدید مسائل سے باہر نکل کر عالمی معیار کے سرکلر ریلوے سے مستفید ہو سکیں۔

تازہ ترین