• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر کے ان تمام وزراء اور سیاستدانوں کے لئے ایک ”جنتی دروازہ“ کھول دیا ہے تاکہ اس سے گزر کر سب ”پاک صاف“ ہو جائیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کر دیا ہے جس کی آج پیر کو سماعت ہو گی۔ ممکن ہے یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے کیا گیا ہو۔ یہ کہا جا رہا ہے جو بھی بدعنوانی، بے قاعدگی میں ملوث ہو گا اس کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیئے جائیں گے ۔ وجوہات کچھ بھی ہوں وزیر اعظم کا یہ اقدام قابل ستائش تو ہے۔ اس خطہ کے عظیم ، قابل احترام ولی اللہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمة کے مزار پر حاضری دے کر وزیر اعظم نے روحانی امداد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ”راجہ کو خواجہ نے بلایا ہے“ صدر مملکت کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت بھی خواجہ اجمیر کے مزار پر حاضری دے چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خواجہ اجمیر سب کی مرادیں پوری کرتے ہیں۔ داتا گنج بخش ہوں، عبداللہ شاہ غازی، حضرت نظام الدین اولیاء ، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، حضرت مجدد الف ثانی  ، حضرت صابر کلیری ، حضرت بو علی شاہ قلندر، حضرت لعل شہباز قلندر، بابا تاج الدین ناگپوری یا سیدنا وارث علی شاہ ، یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے برصغیر کو دین کی روشنی سے منور کیا۔ امن و شانتی کا پیغام دیا۔ خود کو احتساب کے لئے پیش کر کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے سب کو ایک روشن راستہ دکھا دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم گیلانی، ان کے صاحبزادگان ، وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم، مخدوم شہاب الدین پر بھی مالی کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے گئے اور بہت سے کیسز زیرسماعت بھی ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک نیک نام سابق پولیس افسر شعیب سڈل کا نام جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کے لئے تجویز کیا ہے۔ سپریم کورٹ سڈل صاحب کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کر دے جو ان تمام وزیروں، سیاستدانوں کی کرپشن کے الزامات کی سماعت کر کے رپورٹ پیش کرے۔ شعیب سڈل ایسے افسر ہیں جن پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور سب کو ان پر اعتماد بھی ہے۔ یہ بڑے ستم کی بات ہے کہ اس وقت ہی نہیں ماضی میں بھی حکمرانوں، سیاستدانوں کے خلاف الزامات عائد ہوتے رہے لیکن ان سیاستدانوں نے کبھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا اور اگر کسی بڑے سیاستدان کو سزا بھی ہوئی تو اسے ”انتقامی کارروائی“ قرار دیا گیا اگرچہ بڑی حد تک یہ درست بھی ہے۔ بی بی شہید کے دور میں میاں نواز شریف، ان کے خاندان کے خلاف دوچار نہیں ایک سو کے قریب مقدمات بنائے گئے اور ایسا ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا۔ صدر زرداری نے تو پانچ سال قید کاٹی۔ میاں شہباز شریف، میاں عباس شریف، چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، میاں منظور وٹو ہی نہیں 19سالہ حمزہ شہباز بھی قید کئے گئے۔ اس طرح کرپشن کو انتقام و نفرت کی بیساکھی بنا دیا گیا لیکن منی لانڈرنگ ، کک بیک کی وصولی تو ہوئی ہے اور بہت سے نام ہیں جن کے بیرون ملک اکاؤنٹس ہیں۔ خبریں تو یہی ہیں کہ اربوں ڈالر بیرون ملکوں میں پڑے ہوئے ہیں، فلیٹس اور محل بھی ہیں۔ ایک بنک کے سربراہ نے مجھے بتایا کہ دو وفاقی وزیر، ایک سابق وزیر اور ایک صاحبزادے نے کروڑوں روپے کی بدعنوانی کی ہے، کمیشن لیا ہے لیکن یہ سارا کام اتنی مہارت سے کیا گیا کہ فائلوں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور کوئی ثبوت نہیں چھوڑا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے ہماری اطلاعات پکی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ بڑے پیمانے پر خوردبرد ہوئی ہے لیکن کوئی ثبوت ہاتھ نہیں آ رہا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری لائق صد تحسین ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے سکینڈل کا از خود نوٹس لے کر اربوں روپے نکلوائے ہیں اور ظاہراً چند شخصیتوں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ رینٹل پاور کیس بھی اس میں سے ایک ہے۔ ایک وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ محمد آصف مدمقابل تھے۔ اس وقت وزیر اعظم بجلی و پانی کے وزیر تھے ان کو بھی نوٹس جاری کیا گیا اور تمام معاہدے منسوخ کئے گئے۔ یہ کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ وہ بے گناہ ہیں ان کے ہاتھ صاف ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا تاکہ عام انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مسئلہ صرف ایک وزیر اعظم کا نہیں سینکڑوں ایسے ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کروائے ہیں۔ قاعدے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کے قرضے لئے ہیں۔ انکم ٹیکس چوری تو سب نے کی ہے اب جب الیکشن کمیشن نے ”حساب کتاب“ طلب کر لیا ہے تو منتخب ارکان اس کی راہ میں ”جمہوری باڑ“ کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جو فارم تجویز کیا ہے پارلیمنٹ کے ارکان نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امیدواروں سے چند حرفی حلف نامہ لیا جائے کہ ”میں نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا، کوئی ٹیکس چوری نہیں کی، میری اور میرے خاندان کے افراد کے ذمہ نہ کوئی قرضہ ہے نہ کبھی کسی جرم میں ملوث رہا ہے۔ “ جبکہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے دستاویزی ثبوت طلب کرنا چاہتا ہے اور آئین کی شق 62،63 پر ہر صورت عمل کرنے پر بضد ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی تجاویز منظور کر لی گئیں تو بہت سے ”سیاسی چمپئن“ الیکشن میدان سے باہر ہو جائیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ آنے والے سات دن بڑے اہم ہیں۔ اگر وزیر اعظم اس ”امتحان“ میں کامیاب ہو گئے تو ان کا سیاسی قد اور بڑھ جائے گا۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ وہ اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں جس کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی انتخاب میں حصہ لے گی۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں پی پی پی پی رجسٹر ہے۔ قاعدے قانون کے مطابق اس پارٹی کے نامزد امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کے مجاز ہوں گے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی آئینی حیثیت کیا ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین، سینیٹر جہانگیر بدر سیکرٹری جنرل، یوسف رضا گیلانی سینئر نائب صدر ہیں۔ انتخابی سرگرمیوں میں یہ کس حیثیت سے حصہ لیں گے۔ جلسہ جلوس کریں گے۔ الیکشن کمیشن جب اسے رجسٹر پارٹی تصور نہیں کرتا تو کیا غیر رجسٹر پارٹی کے عہدیدار انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر محترمہ بی بی شہید اور میاں نواز شریف کو یہ خدشہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر اعتراض کر کے ان کی پارٹیوں کو الیکشن سے باہر کر دے گا تو اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو نے مخدوم امین فہیم کو پی پی (پارلیمنٹرین) کے نام سے نئی جماعت رجسٹر کرانے کی ہدایت کی اور میاں نواز شریف پارٹی صدارت سے الگ ہو گئے اور چودھری نثار کی تجویز پر شہباز میاں کو پارٹی صدر بنا دیا گیا جبکہ جاوید ہاشمی قائمقام صدر بنائے گئے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹرین کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور اب بھی یہ فیصلہ برقرار ہے۔ اس حیثیت سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے انہیں تمام الزامات سے ”کلین چٹ“ کی ضرورت ہے اور اس کے لئے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔
تازہ ترین