• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ اعترافِ جرم کر کے جیل چلے جاؤ، صرف اسی صورت میں تمہاری اور میری جان بخشی ہو سکتی ہے“۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا ایک ایس ایچ او اپنے تھانے میں ضمانت پر رہا ہونے والے ایک ملزم کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”دیکھو میری تمہارے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور میں یہ بات بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تم نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں، لیکن میں مجبور ہوں“۔ ملزم بولا ”لیکن میں نے یہ جرم نہیں کیا، خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کریں“۔ ایس ایچ او بڑے ہمدردانہ انداز میں مخاطب ہوا ”دیکھو جب طاقتور اور کمزور کی چپقلش ہو تو کمزور کو ہار ماننا ہی پڑتی ہے۔ تمہارے کیس کا مدعی اس وقت اسلام آباد کی سب سے بااثرشخصیت ہے اور میرے افسران ِ بالا نے مجھے حکم دیا ہوا ہے اس لئے میرے پاس کوئی چارہ نہیں “۔” اور ہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا کہ میرے پاس تمہارے جیسے لوگوں کو قابو کرنے کے سو حربے ہیں، اگر میری بات نہ مانی تو اتنے مقدموں میں ڈالوں گا کہ ساری عمر ضمانتیں کراتے رہو گے لیکن پلٹ کر میرے پاس ہی آؤ گے“۔ ملزم اصرار کرتا رہا کہ اس نے جرم نہیں کیا لیکن پہلے والے ایس ایچ او کو ملزم سے اعترافِ جرم نہ کروا سکنے پر تبدیل کر کے موصوف کو بطور خاص وہ کیس سونپا گیا تھا۔کچھ نہ کچھ تو اسے کرنا تھا ورنہ افسرانِ بالا کے سامنے اس کی ”شہرت“ خراب ہونے کا سخت خطرہ تھا کہ وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بعد اس ملزم کے ساتھ جو کچھ ہوا، ایک دردناک داستان ہے، بس آپ کی تسلی کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔
ایس ایچ اونے جو کہا سچ کر دکھایا۔ یقینا اس کے افسران بالا (اس میں بالا ترین افسران بھی شامل ہیں) اس کی کارکردگی سے بہت خوش ہوں گے اور اسلام آباد کی سب سے بااثر شخصیت ان افسران ِ بالا کی کارکردگی سے بہت خوش ہو گی۔ خوش تو رکھنا ہی پڑتا ہے ورنہ اسلام آباد میں پوسٹنگ قائم رکھنا کوئی مذاق ہے۔ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہے، ذرا سا اس بااثر شخص کو ناراض کیا، دس منٹ میں کوئی اور چارج لینے آ جائے گا۔ اب”اچھے“ افسر اس طرح پولیس کی نوکری تھوڑے ہی کرتے ہیں!!!
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام آباد میں ہی یہ حالات اتنے مایوس کن ہیں، پورے ملک کی پولیس اسی طرح بااثر شخصیات کی نوکری کرتی ہے، پورے ملک میں تھانے ٹھیکوں پر چل رہے ہیں۔ ہماری پولیس تنخواہ تو آپ کے اور میرے ٹیکس کے پیسوں سے لیتی ہے، کروڑوں اربو ں روپے کے فنڈز بھی آپ کے اور میرے ٹیکس کے پیسوں سے جاتے ہیں لیکن نوکری یہ بااثر شخصیات کی کرتی ہے۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ ہالی وڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے امریکہ اور میکسیکو کے بڑے بڑے ڈان کتنے بدقسمت ہیں ، بیچاروں کو لوگوں پر اپنی دہشت قائم رکھنے ، زمینوں پر قبضے کرنے ،قتل و غارت کرنے، مخالف مجرم گروہوں کے ساتھ برسرِ پیکار رہنے کیلئے اتنے بڑے بڑے گینگ پالنا پڑتے ہیں، ان پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں ، ان کے مقدمات کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں ہوتے تو انہیں اس طرح کے کسی جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔صرف اپنی مرضی کا ڈی پی او، سی پی او یا آئی جی لگواتے اور اسے کہہ دیتے کہ جس سے میں تمہیں اس عہدے پر لگوا رہا ہوں ، میں اس کے بیڈ روم میں جس وقت چاہے جا سکتا ہوں اور بس بنے بنائے تجربہ کار گینگ حاضرِ خدمت!!! میں اکثر یہ ”کسی بھی وقت بیڈ روم جانے والی“ بات سنتا رہتا ہوں بلکہ اب تو یہ اتنے تواتر سے سننے میں آتی ہے کہ ہمارے اردو دان حضرات کو چاہئے کہ ”کسی بھی وقت بیڈ روم میں جانا“ کو اردو محاوروں کی فہرست میں شامل کر لیں۔
اس وقت ہماری پولیس کی حالت یہ ہے کہ بااثر شخصیات کے کہنے پر یہ لوگوں کو سات تہوں سے بھی نکال کر لے آتے ہیں اور اپنی ”اہلیت“ دکھانے کیلئے اسے چھتر مار مار کر جان سے بھی مار دیتے ہیں لیکن ایک عام آدمی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو جانے کی صورت میں وہ اگر ایک سال بھی تھانے کے گیٹ پر بیٹھا رہے تو اس کی ایف آئی آر نہیں ہوتی۔ ہاں ایف آئی آر ہونے کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ خود اسی کو کسی جھوٹی ایف آئی آر میں بند کر دیا جائے گا اور پھر اس ضمانت پر چھوڑ دیا جائے کہ دوبارہ تھانے کے گیٹ کا رخ کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
ایک طرف تو بحیثیت ادارہ پولیس کا عوام کی طرف یہ رویہ ہے، دوسری طرف خود پولیس کا ادارہ بھی ”اچھے“ اور ”قابل“ ایس ایچ اوز، ڈی پی اوز، سی پی اوز اور آئی جی صاحبان کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ان” قابل“ افسران کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔ ”قابل“ افسران کا یہ گروہ سارے اہم ترین عہدوں پر قابض رہتا ہے اور پھر پورے کے پورے پولیس کے ادارے کو ، جو باقی ماندہ کم ”قابل“ افسروں پر مشتمل ہوتا ہے، پر اپنی ہر جائزناجائز خواہش ٹھونستا رہتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ پولیس کا محکمہ ان ”قابل“ افسروں سے اتنا ہی عاجز ہے جتنا کہ عوام پولیس کے ادارے سے عاجز ہے۔ حال ہی میں میرے ایک ڈی پی او دوست کو چند دنو ں میں اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ عوام کو قانون کے مطابق ان کا حق دینے اور ”قابل“ ایس ایچ اوز کو نکیل دینے کی کوشش میں لگ گیا اور اس بات کو تو کوئی بھی گوارا نہیں کرتا ، نہ ہی محکمے کے ”قابل“ افسرانِ بالا اور نہ ہی صبح شام” میرٹ “کا چورن بیچنے والی حکومت۔ دونوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جو بات ان کے منہ سے نکل جائے، اس پر فوراً من و عن عمل ہو جائے، یہ سوچنے کی کسی کو اجازت نہیں کہ قانون اور انصاف کیا کہتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں لا قانونیت ، جرائم، پولیس گردی اور دہشت گردی کی جو سیاہ رات چھائی ہوئی ہے، انہی ”قابل“ پولیس افسران کے دم قدم سے ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ پولیس میں سارے ہی ”قابل“ افسران ہیں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا ضمیر اور اہلیت ان کی’ ’قابلیت“ کی نظر نہیں ہوئی لیکن ایسے لوگ کونوں کھدروں میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ ہمارے حالات کئی عشروں میں بتدریج اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب یہ سب کچھ مزید اس طرح نہیں چل سکتا یا تو ہمیں بحیثیتِ قوم ان بااثر شخصیات اور ان کے نوکر ”قابل“ پولیس افسران کا کوئی بندوبست کرنا ہو گا یا پھر ہمیں روانڈا اور ایتھوپیا جیسے حالات کا سامنا کرنا کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
تازہ ترین