• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’1999میں پاکستان کی فی کس آمدنی 640ڈالر، بھارت کی فی کس آمدنی 460اور بنگلا دیش کی 390 ڈالر تھی۔ 2019میں بھارت کی فی کس آمدنی 2000 ڈالر، بنگلا دیش کی 1700ڈالر اور پاکستان کی 1400 ڈالر ہے۔

2018میں پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 315بلین ڈالر، بھارت کا 2726بلین ڈالر تھا۔ 2019میں پاکستان کا جی ڈی پی 284بلین ڈالر رہ گیا ہے جبکہ بھارت اور بنگلا دیش کا جی ڈی پی بالترتیب 2935اور 317بلین ڈالر ہو گیا۔

ہماری معاشی شرح نمو اگلے دو سال کیلئے 2سے 3.5فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے جبکہ انڈیا اور بنگلا دیش 6فیصد معاشی نمو سے ترقی کریں گے‘‘۔

یہ اعدادو شمار اڈیالہ جیل میں بند ضمیر کے قیدی پروفیسر احسن اقبال نے قیدِ تنہائی میں لکھے اپنے آرٹیکل ’’آگے بڑھنے کا راستہ‘‘ میں پیش کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ 1993میں جب میری عمر 35برس تھی، میں پہلی مرتبہ ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوا۔

2018میں پانچویں مرتبہ نارووال کے عوام نے مجھ پر اظہارِ اعتماد کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کیلئے منتخب کیا۔

اس جمہوری سفر میں بہت سے نشیب وفراز کا مشاہدہ کیا، قوم کی کایا پلٹ دینے والے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع ہے جیسا کہ وژن 2010اور وژن 2025اور پاک چین اقتصادی راہداری۔ دوسری طرف میں نے لاٹھی چارج کا بھی سامنا کیا۔ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران میرے جسم میں گولی بھی اتاری گئی۔

امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ احسن اقبال ایک ایسے خاندان کے چشم وچراغ ہیں جس کی مذہبی، سماجی اور سیاسی خدمات ان کی پہچان تھی۔ ان کے نانا چوہدری عبدالرحمٰن قیامِ پاکستان سے قبل بھی اپنے علاقے کی نمایاں سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔ ان کی والدہ محترمہ آپا نثار فاطمہ کی مذہبی و سیاسی خدمات واضح ہیں۔

جماعت اسلامی سے مسلم لیگ کی طرف اپنے سفر کے حوالے سے درویش کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ میرا باقاعدہ تعلق تو نہیں رہا البتہ دورِ طالبعلمی میں میرا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے۔

میری سیاسی تربیت میں جمعیت کے اس دور کا بڑا دخل رہا ہے ۔آج سے ربع صدی قبل درویش کے عمران خان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ’’آپ پوری انسانی تاریخ میں اسلامی عمل اور اسلامی تحریکیں ملاحظہ فرما لیں، چاہے کوئی لیڈر ہو یا سیاستدان وہ نظام ہی سے نمودار ہوتا ہے جب تک وہ نظام کا حصہ نہ ہو، نظام کو سمجھتا نہ ہو، وہ اس کی اصلاح کیسے کر سکتا ہے؟‘‘

بہرحال یہ تو ماضی کی باتیں تھیں، آج کی بات یہ ہے کہ احسن اقبال سی پیک کے فکری و عملی معمار ہی نہیں رہے ہیں بلکہ وہ سی پیک کی پہچان یا سی پیک ان کی پہچان بنا رہا۔

ایک وقت میں وزارتِ عظمیٰ کیلئے بھی اُن کا نام لیا جاتا رہا۔ اس حیثیت میں ان کی محبتوں کا مرکز پورا پاکستان ہے لیکن ان پر پہلا حق ظاہر ہے ان لوگوں کا ہے جو انہیں بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ منتخب کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہوں ان کی تمنا ہوتی ہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت نارووال میں اپنے حلقے کے عوام کے درمیان گزاریں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کا نارروال انفراسٹرکچر اور تعلیمی معیار کے حوالوں سے حقیقی معنوں میں ایک نیا اور ترقی یافتہ ناروال دکھائی دیتا ہے۔ نارووال اسپورٹس کمپلیکس تو گویا ان کا ایک ایسا خواب تھا جسے وہ سوتے اور جاگتے ہوئے برابر دیکھتے بلکہ نارووال آنے والے اپنے مہمانوں کو وہ اس کی سیاحت اس طرح کرواتے اور اس کی جزئیات تک یوں دکھا رہے ہوتے جیسے ایک معصوم سا بچہ اپنے کھلونے دکھاتا اور خوش ہوتا ہے۔

جس طرح کوئی فنکار اپنا شاہکار اور کوئی تخلیق کار اپنا شہ پارہ دکھا کر خوشی و مسرت محسوس کر رہا ہوتا ہے۔

افسوس آج وہ اپنے اس شاہکار کی تکمیل دیکھنے سے پہلے ہی پابند ِ سلاسل کر دیے گئے ہیں۔ ان کی گرفتاری کی خبر کے ساتھ ہی کرپشن کے الزامات دہرائے گئے کہ کسی غیرمعروف اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ انہوں نے اس منصوبے میں 6ارب کی کرپشن کی ہے حالانکہ منصوبے کی کل مالیت 2ارب 90کروڑ ہے۔

مآبعد احتسابی ادارے کی طرف سے ہی وضاحتیں ہوئیں کہ احسن اقبال پر ذاتی کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ہے۔

کوئی مالی بےضابطگی بھی نہیں ہے البتہ انہوں نے پروجیکٹ کی منظوری میں فزیبلٹی کا خیال نہیں کیا، یوں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی وزارت کے دوران منظوری حاصل کی جبکہ ریکارڈ کے مطابق فزیبلٹی کی منظوری 2009میں اُس وقت ہوئی تھی جبکہ اُن کی حکومت بھی نہ تھی۔

یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ اتنا بڑا پروجیکٹ سرحد سے محض 8سو میٹر پر بنایا گیا ہے حالانکہ یہ فاصلہ 11کلو میٹرز کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نوع کی کوئی بات نہ تھی، اصل دکھ کچھ اور ہوتے ہیں بیان کچھ اورکیے جاتے ہیں۔

احسن اقبال گھبرانے والے انسان نہیں، وہ اس وقت نہ گھبرائے جب گولی ان کی کہنی کو چیرتے ہوئے پیٹ میں پیوست ہو گئی۔

دوستوں نے بہت کہا کہ آپ عوامی روابط پر کٹ لگائیں، سیکورٹی تقاضوں کا خیال رکھیں مگر یہ سب باتیں عوام سے ان کی محبت کو کم نہیں کر سکیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مصائب و آلام اہلِ حق پر ہمیشہ آتے ہیں جن کا مقابلہ وہ خندہ پیشانی سے کرتے ہیں۔

قانونِ فطرت ہے کہ راتوں کی سیاہی خواہ کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، ہر رات کے بعد سحر نمودار ہوتی ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان کو بالآخر آئینی و جمہوری راہوں پر ہی چلنا ہے جس میں آزادیٔ اظہار کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کا احترام لازم ہوگا اور پاکستان ان کی تمنائوں کے مطابق ’’آگے بڑھنے کا راستہ‘‘ تلاش کر لے گا۔

تازہ ترین