• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ہمارے لوگوں کو کیوں نہیں واپس لا رہے؟‘، ’چین میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس نہ لائیں، وہ چین اپنے لیے گئے تھے، اب اُدھر ہی رہیں!‘، ’چین سے آنے والی فلائٹس بین کرو!‘، ’کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا ہم سوتیلے ہیں؟ ہمیں کیوں نہیں نکالا جا رہا!‘، ’یہ دوستی ہمیں مہنگی پڑ گئی ہے، فلائٹس کیوں آنے دے رہے‘، ’حکومت کیا کر رہی ہے؟‘ یہ وہ چند آوازیں ہیں جو میڈیاو سوشل میڈیا پر اور معاشرے میں گونج رہی ہیں۔ لوگوں کی مختلف آراء ہیں اور مختلف احساسات۔ کرونا وائرس پر لکھنا بھی آسان تھا اور اس سے تحفظ کے اقدامات بتانا بھی لیکن چین میں پھنسے پاکستانیوں جیسے موضوعات پر لکھنا مشکل ہے، صرف اس لیے کہ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ ہمارے اپنے لوگ چین میں پھنسے ہوئے ہیں اس لیے جذباتی ہو کر لکھنے کے بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔

پہلی حقیقت:ہمارا صحت کا نظام نہ تو اتنا اچھا ہے اور نہ ہی لوگوں کا اِس پر اعتبار ہے۔ ہمارے نظامِ صحت پر بہت باتیں ہو بھی چکی ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں اور جس کسی کا بھی کبھی کسی سرکاری اسپتال سے واسطہ پڑا ہو، وہ یہ بتا سکے گا کہ مریض کے لیے کہیں بھی معیاری علاج موجود نہیں ہے۔ ڈینگی ہو یا پولیو، ہم آج بھی ان بیماریوں پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کرونا وائرس پاکستان میں تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا تو ہم جو جاپان کی امداد میں دی گئی ٹیسٹ کٹس سے صرف چند روز پہلے محض اسلام آباد میں کرونا ٹیسٹ کرنے کے قابل ہوئے ہیں، اِس مسئلے کو آسانی سے سنبھال نہیں سکیں گے۔ ہمارے اسپتالوں میں جہاں پہلے ہی بیڈ موجود نہیں ہیں کہ عام مریضوں کے لیے پورے ہوں، وہاں کرونا وائرس کے مریضوں کو آئیسولیشن تو دور کی بات، ہم رکھیں گے کہاں؟ چین نے 6دن کی ریکارڈ مدت میں 1000بستر کا نیا اسپتال کھڑا کر دیا ہے، ہم ایسی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمارے مالی وسائل اِس بات کی اجازت دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں کہ کرونا وائرس یہاں نہ آئے۔ ہم پاکستان میں لوگوں کے تحفظ اور علاج کے لیے وہ سہولتیں نہیں دے سکتے جو انہیں چاہئیں! یہاں پر جن کا علاج کیا بھی جائے گا، وہ بعد ازاں احتجاج کریں گے کہ معیاری علاج مہیا نہیں کیا جا رہا۔

دوسری حقیقت:ہم اصول پسند نہیں ہیں۔ جب بھی اِس طرح کی وبا پھیلتی ہے تو ڈسپلن بہت ضروری ہوتا ہے۔ چین نے پورے شہر بند کر دیے۔ امریکہ اور آسٹریلیا میں جو لوگ چین سے واپس جا رہے ہیں، ان کو سختی سے کم از کم دو ہفتوں کے لیے الگ آئیسولیشن رومز میں رکھا گیا ہے اور 14دن تک وہاں سے نکلنے کی قطعاً کسی کو اجازت نہیں ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ یہاں پر ہم اتنے آئیسولیشن رومز لائیں گے کہاں سے؟ اگر کچھ انتظام ہو بھی گیا تو کتنے وی آئی پیز ہوں گے جو فون کر کرا کے، کسی نہ کسی کو نکال لیں گے۔ کہیں پیسہ چلے گا اور کہیں اثر، جہاں یہ دونوں چیزیں نہ بھی ہوں تو ہم بحیثیتِ قوم کب اپنی مرضی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سندھ میں چین سے آئے ہوئے پاکستانی طالبعلم کی ہی مثال لے لیں۔ جو دوائی کھا کر بذریعہ قطر کراچی پہنچ گیا۔ دوائی سے اس کے بخار کاایئرپورٹ پر اسکریننگ کرنے والوں کو نہیں پتا چلا اور وہ اسپتال کے بجائے اپنے گائوں چلا گیا۔ وہاں زیادہ طبیعت خراب ہونے پر اسپتال گیا، اور اُدھر بھی آئیسولیشن میں رہنے کے بجائے اسپتال سے بھاگ کر اسلام آباد کا رخ کر لیا۔ موٹروے پولیس کو ملتان ٹول پلازہ پر اسے روکنا پڑا اور واپس اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ یہ تو ایسا وائرس ہے کہ صرف ایک شخص اس وائرس کو پورے ملک میں پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

تیسری حقیقت:یہ بات نفرت کی نہیں بلکہ لوگوں کے بھلے کی ہے۔ جب اِس طرح کے کرائسس پیدا ہوتے ہیں تو اس میں انفرادی فائدے پر اجتماعی فائدے کو ترجیح دے جاتی ہے۔ کسی قحط کی مثال لے لیں، جب قحط پڑتا ہے تو اناج اسٹور کر لیا جاتا ہے اور لوگوں کو مخصوص مقدار میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اب انفرادی طور پر تو یہ مشکل ہے اور لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھوکے ہیں لیکن اجتماعی طور پر سب کی بہتری کے لیے یہی بہترین حکمت ِ عملی ہے۔ یہ معاملہ جذبات کا نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بہترین حکمت ِ عملی کا ہے۔

تمام پاکستانی خواہ چین میں ہوںیا کہیں اور‘اپنے پاکستانیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ جانتے ہیں کہ زیادہ بہتری اِسی میں ہے کہ چین میں موجود پاکستانیوں کو بہتر علاج کی سہولت ملے اور وائرس کو اِدھر آنے سے روکا جائے۔ اِس میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ڈسپلن سے رہیں اور اگر ہم بیمار ہوں تو اپنی خود غرضی میں اور اپنے وقتی فائدے کے لیے کروڑوں دیگر جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

کوئی کسی سے نفرت نہیں کر رہا یا کسی سے کم ہمدردی نہیں دکھا رہا، یہ حالات کے مطابق بہتر حکمت ِ عملی کی بات ہے۔ اِس وقت حکومت کا فیصلہ میرے نزدیک درست ہے کہ چین میں مقیم پاکستانیوں کو بالخصوص ووہان میں موجود پاکستانیوں کو واپس نہ لایا جائے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن اس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ اگرچہ ’’قوم کا وسیع تر مفاد‘‘ ایک مذاق سا بن گیا ہے لیکن حقیقتاً اِس وقت قوم کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین