• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوں جوں ہمارا میڈیا ترقی کی منزلیں طے کرکے بلوغت کی حدود میں داخل ہو رہا ہے، میں دانشوروں کی دانش وریاں دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہا ہوں۔ عام قارئین سے مل کر بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کیونکہ اکثر اوقات ان کے سوالات اس ضمن میں ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں میں ایک تقریب میں جا رہا تھا تو ایک مانوس چہرے نے روک دیا۔ گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر کہنے لگے ’’ڈاکٹر صاحب کبھی آپ نے غور کیا کہ ہمارا میڈیا نئی نئی اصطلاحات اور نئی نئی ترکیبات کو بار بار استعمال کرکے ایک عجیب سا کنفیوژن پھیلا رہا ہے؟

میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت میں تو اس صورتحال سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میرا اور آپ کا تعلق پانچ چھ دہائیاں پرانی نسل سے ہے جس کے اپنے الفاظ، اپنے محاورے اور اپنے انداز ہوتے تھے۔

ہمارا موجودہ میڈیا ہماری نوجوان سوچ کی نمائندگی کرتا ہے اور نوجوان سوچ ہمیشہ پرانے پیمانوں اور ماضی کے روایتی انداز سے انحراف یا بغاوت کرتی ہے۔

ہماری نسل کی شاعری اور ادب ہمارے بزرگوں کی شاعری اور ادب سے مختلف تھا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ زندگی کی حقیقتوں اور سماجی مسائل سے قریب تر تھا۔ اسی طرح موجودہ دانشور بھی نئے نئے تجربات کر رہے ہیں اور نئی نئی اصطلاحیں ایجاد کر رہے ہیں۔

میری بات سن کر انہوں نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے ایک لفظ کو بہت اچھالا ہے جسے پڑھ اور سن کر مجھے افسوس ہوتا تھا۔ وہ لفظ تھا وہ ایک پیج (PAGE)پر نہیں ہیں یا وہ ایک پیج پر ہیں۔ اول تو یہ انگریزی کا محاورہ ہے اور پیج انگریزی کا لفظ ہے۔

ہماری اردو اور ہماری نسل اس بات کو یوں بیان کرتی تھی کہ ان میں اتفاقِ رائے یا ہم آہنگی نہیں ہے۔ یا اس مسئلے پر ان میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہمارے میڈیا نے ایک پیج کا خوب کچومر نکالا۔

اب اسے بھول کر بیانیے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مستعمل محاوروں اور برسوں سے استعمال ہونے والے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نئے نئے الفاظ کو کیوں اچھالا جا رہا ہے جو بظاہر انگریزی الفاظ کا بےڈھب ترجمہ لگتے ہیں۔جب تک بیانیہ ایجاد نہیں ہوا تھا ہم اس کے بجائے موقف یا نقطہ نظر کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔

مثلاً پی ٹی آئی یا مسلم لیگ کا موقف یہ ہے۔ اب اسے بیانیہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے دوبارہ عرض کیا کہ حضور الفاظ، محاورے اور اصطلاحیں وقت کے سانچے میں ڈھلتی رہتی ہیں اور ہر نسل اپنا اظہاریہ خود ایجاد کرتی ہے۔ ہماری نثر ہمارے بزرگوں کی نسل سے کہیں زیادہ آسان اور عام فہم تھی کیونکہ ہمارے بزرگوں کی نثر میں فارسی، عربی کے الفاظ کی فراوانی تھی ہماری نثر پر صحافت اور اخباری زبان کے اثرات مرتب ہوئے چنانچہ وہ عربی فارسی سے آزاد ہو کر آسان اور عام فہم ہوتی گئی۔

وہ میری وضاحت سے مطمئن ہوئے یا نہیں لیکن انہوں نے فوراً پینترا بدلا اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب آج کل ہمارے دانشور دانشوری کا رعب جمانے کے لئے ایک نیا فلسفہ جھاڑ رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک نئےسوشل کنٹریکٹ یعنی عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔

ہمارا عمرانی معاہدہ متروک ہو چکا ہے۔ میں انگلستان امریکہ اور کئی ممالک میں رہ چکا ہوں۔ان ممالک میں کبھی اس طرح کی بحث نہیں سنی۔ قوموں کے اپنے آئین، قانونی ضابطے، اخلاقی اصول و روایات اور سیاسی نظام ہیں۔

جمہوری ممالک میں اسے ہی قوم کا عمرانی معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں آئین موجود ہے جس میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں اور ترامیم کر لی جاتی ہیں۔ مثلاً صوبائی خودمختاری کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی تو اٹھارہویں آئینی ترمیم معرض وجود میں آ گئی۔

مستقبل میں کوئی نیا چیلنج یا تقاضا ابھرے گا تو اس سے نپٹنے کے لئے پارلیمنٹ موجود ہے، صوبائی اسمبلیاں بھی موجود ہیں۔ علاقائی اور صوبائی مفادات کی نمائندگی کرنے کےلئے سیاسی پارٹیاں اور علاقائی پریشر گروپس بھی موجود ہیں۔

قانونی ضابطے اور اپنے اپنے روایتی اخلاقی معاشرتی ڈھانچے بھی موجود ہیں۔ پھر یہ دانشور حضرات ہم پر رعب جمانے کے لئے نیا عمرانی معاہدہ طے کرنے کا واویلا اور شور کیوں مچاتے ہیں؟

میری طرح آپ نے بھی پولیٹکل فلاسفی کی کتابوں میں سوشل کنٹریکٹ تھیوری کا پس منظر پڑھا ہوگا۔ عمرانی معاہدے کے موجدروسو، ہابز اور لاک تھے اور انہوں نے جس دور میں شعور کی آنکھیں کھولیں وہ قانونِ فطرت (LAW OF NATURE)کا دور تھا۔

سولہویں اور سترہویں صدی کے اس زمانے میں معاشرے کو عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی اور اسی فلسفے سے حکومت، ضابطے، آئین اور جمہوریت کے تصورات نے جنم لیا۔

سولہویں سترہویں صدیوں کے تصورات کو اکیسویں صدی کا منشور بنانا اور تیز رفتار کاروں کی بجائے بگھی اور گھوڑے کی وکالت کرنا ماضی میں لوٹ جانے کی آرزو تو ہو سکتی ہے جو صرف دانشورانہ مباحث کا موضوع بن سکتی ہے لیکن عملی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔

تحریری آئین، قانونی ضابطے، جمہوری نظام حکومت اور سماجی ڈھانچے کی موجودگی میں نئے سوشل کنٹریکٹ کا مطالبہ مجھے محض خیالی پلائو لگتا ہے۔ ہمارا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ خیالی پلائو ہی پکانا ہے تو اس میں خوب میوے ڈالنا چاہئیں۔

اسی طرح ہمارے دانشور بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر اس خیالی پلائو میں میوے ڈال رہے ہیں لیکن اس پلائو کو کھائے گا کون؟

میں ان کی باتیں سنتا اور محظوظ ہوتا رہا تاخیر اور لیٹ ہو جانے کے احساس نے مجھے جھنجوڑا۔ بمشکل اجازت ملی تو میں نے عرض کیا حضور میں آپکے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔

اسی طرح آج کل ہمارے دانشور دو اداروں یا قومی قوتوں کے درمیان ڈائیلاگ کی تھیوری کو فروغ دے رہے ہیں حالانکہ ان کے دائرہ کار آئین میں طے ہیں۔ وہ ذرا شیر اور بکری کو ایک ہی تالاب سے پانی پلالیں تو پھر بات کریں گے۔

تازہ ترین