• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب کا نقارہ بجتے ہی سب بدعنوان سیاستدان میدان چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر چکے، چند ایک جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں، بعض اپنی باری کے منتظر ہیں یا پھر اچھے بچوں کی طرح کونے میں بیٹھ کر دہی کھا رہے ہیں۔

ان کرپٹ سیاستدانوں کا ساتھ دینے والے بیوروکریٹس کو چن کر دیوار سے لگا دیا گیا، اسٹیٹس کو کا ساتھ دینے والے ’’لفافہ صحافی‘‘ جو منفی خبریں پھیلا کر تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، ان کے ہاں بےروزگاری کے سبب فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔

سول اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے کیونکہ اس بار صادق و امین افراد برسراقتدار آئے ہیں، ٹیکس وصولی کے نظام کی اصلاح کر دی گئی ہے، اب لوگوں کو یقین ہے کہ ان کا پیسہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہوگا مگر پھر بھی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور مثبت خبریں چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔

ایک روز معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی گروتھ ریٹ کے اعتبار سے ہم نے بنگلا دیش، بھارت، مالدیپ، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کے بعد افغانستان کو بھی پیچھے بلکہ بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے تخمینے کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.8فیصد رہنے کی توقع ہے۔

اس معکوس ترقی پر دل کڑھتا ہے تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتا ہوں کہ ان نیک اور پرہیز گار لوگوں کی وجہ سے جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.8فیصد تک گرا ہے وگرنہ یہ 1.8فیصد بھی ہو سکتا تھا۔ بمشکل اس صدمے سے نکلتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ایف بی آر کے ہاں جمع ہونے والا ریونیو بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔

ابتدائی طور پر ایف بی آر کے لئے 5500ارب روپے کا ہدف طے کیا گیا مگر کسی نے توجہ دلائی تو اس ہدف کو کم کرکے 5238ارب روپے کر دیا گیا۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ صورتحال بہت گمبھیر ہے۔

سرتوڑ کوشش کے باوجود ابتدائی 7ماہ کے دوران 2410ارب روپے اکٹھے کئے جا سکے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کی منت سماجت کی جا رہی ہے کہ ٹیکس وصولی کاہدف کم کرکے 4450ارب روپے کرنے کی اجازت دیدی جائے مگر آئی ایم ایف کے بابو نہیں مان رہے۔

حال ہی میں پاکستان آنے والے وفد نے واضح کیا ہے کہ مزید ٹیکس لگائیں، بجلی کے نرخ بڑھائیں یا جو مرضی کریں، مارچ تک 3520ارب روپے اکٹھے کریں ورنہ 45کروڑ ڈالر کی اگلی قسط نہیں ملے گی۔

ہم تو سمجھے تھے کہ کپتان کے آتے ہی ٹیکس چوری ختم ہو جائے گی، لوگ قطاریں بنا کر ایف بی آر کے دفاتر کے باہر ٹیکس جمع کروانے کے لئے کھڑے ہوں گے، اس بات پر جھگڑے ہو رہے ہوں گے کہ ایف بی آر کا تخمینہ کم ہے، ٹیکس زیادہ بنتا ہے۔

ان توقعات کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ حکمران چور اور ڈاکو ہیں، قومی خزانہ لوٹ کر کھا جاتے ہیں، عوام کو ان پر اعتماد نہیں اس لئے ٹیکس وصول نہیں ہوتا۔

ایک بار عوامی اعتماد کے حامل کپتان نے حلف اُٹھا لیا تو ایف بی آر کا ریونیو کئی گنا بڑھ جائے گا مگر یہاں تو روایتی ہدف پورا کرکے آئی ایم ایف سے قرضوں کی نئی قسط وصول کرنا ہی محال ہو گیا ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھا دیے، گیس 200فیصد مہنگی کردی، پیٹرول 6پیسے فی لیٹر سستا کرنے کا ارادہ تھا مگر یہ فیصلہ بھی واپس لے لیا لیکن نت نئے ٹیکس لگانے کے باوجود ایف بی آر کی جمع کی گئی رقوم میں کمی ہورہی ہے۔

کبھی تو دل چاہتا ہے یہ کہتے ہوئے جان چھڑا لیں کہ سابقہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ٹیکس جمع کرکے سب کو دھوکے میں رکھا ہوا تھا، ہم ایف بی آر کے محاصلات کو اس کے اصل مقام پر لا رہے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کہ کینسر بتا کر ملیریا پہ قائل کرنے والی دلیل زیادہ موثر رہے گی کہ شکر کرو کپتان کی وجہ سے ایف بی آر کا ہدف 5500ارب سے کم ہو کر 4450ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے ورنہ قسمت بری ہوتی تو یہ ہدف مزید کم ہو کر 3450ارب روپے بھی ہو سکتا تھا۔

اسی ادھیڑ بن میں یہ دھماکا خیز انکشاف ہوتا ہے کہ قرضے لینے کی صورت میں خودکشی کی دھمکی دینے والی حکومت نے قرضے لینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

حال ہی میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ کسی لفافہ صحافی نے بیان کئے ہوتے یا پھر کسی پٹواری نے شیئر کئے ہوتے تو میں ہرگز اعتبار نہ کرتا مگر یہ اعداد وشمار قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزارتِ خزانہ کی طرف سے تحریری طور پر جمع کروائے گئے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ 2018کے اختتام تک مجموعی قرضہ جات اور واجبات 290کھرب، 87ارب، 90کروڑ تھے مگر ستمبر 2019تک یعنی 15ماہ کے دوران ان قرضوں میں 39فیصد اضافہ ہوا یوں ملکی و غیرملکی قرضہ جات و واجبات بڑھ کر 410کھرب، 48ارب، 90کروڑ سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ 15ماہ کے دوران حکومت نے 110کھرب 60ارب روپے کے نئے قرضے لئے۔یعنی موجودہ حکومت ماہانہ تقریباً 7کھرب روپے، یومیہ 23ارب روپے، ہر گھنٹے میں کم وبیش ایک ارب روپے جبکہ ہر منٹ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے نیا قرض لے رہی ہے۔

اگر قرض خوری کا یہ المیہ یہاں تک ہی محدود ہوتا تو اور بات تھی مگر وزارتِ خزانہ کی طرف سے خم ٹھونک کر، چھاتی پھلا کر، کندھے اچکا کر کہہ دیا گیا ہے کہ حکومت جنوری 2020سے جولائی2020تک چھ ماہ میں مزید 19کھرب روپے قرض لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

امید ہے یہ قرضے سابقہ قرضے واپس لینے کیلئے لئے گئے ہوں گے مگر ایسی صورت میں مجموعی طور پر قرضے کم کیوں نہیں ہورہے؟

کیا خیال ہے اس صورتحال پر بھی یہی کہہ کر کام نکالا جائے کہ شکر کرو کپتان کی حکومت ہے، اگر کپتان نہ ہوتا تو ملکی قرضوں اور واجبات میں 39فیصد کے بجائے 390فیصد اضافہ بھی ہوسکتا تھا؟

تازہ ترین