• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدلتے موسم اور تہواروں کی آمد آمد سے کچھ پہلے لوگ تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ عمارات کو رنگ و روغن لگائے جاتے ہیں، دکان سجائی جاتی ہیں، گڑھے بھر دیئے جاتے ہیں، خالی گل دانوں میں پلاسٹک کے پھول سجائے جاتے ہیں، نئے کپڑے سلوائے جاتے ہیں، باہر سے نظر آنے والے کھڑکیوں کے میلے پردے دھلوائے جاتے ہیں۔ اگر تہوار دنگل کا ہو تو پہلوان ڈنٹ، بیٹھک نکالنے لگتے ہیں، اگر تہوار عیدالاضحیٰ کا ہو تو بکرے، گائے، بیل، بھینس اور اونٹوں کی منڈیاں لگا دی جاتی ہیں۔ جیسا موسم، جیسا تہوار ویسی تیاریاں نظر آتی ہیں۔ عنقریب الیکشن یعنی انتخابات کے تہوار کی آمد آمد ہے۔ تیاریاں شروع ہو گئی ہیں، جوڑ توڑ کی ترکیبیں سوچی جا رہی ہیں، ایک دوسرے کا پتّا کاٹنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مجھ جیسے بالموں یعنی غریب عوام کو دکھانے کے لئے سبز باغوں کی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں۔ وعدوں کی فیکٹریاں دن، رات چلائی جا رہی ہیں۔ دیدہ زیب ڈبّوں میں بند وعدے ہم بالموں تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ آپ نے ایک محاورہ ضرور سنا ہو گا ”دوسرے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا“۔ الیکشن کے موسم میں ایک نیا محاورہ سننے کو ملتا ہے ”دوسرے کے کندھے پر لاﺅڈ اسپیکر رکھنا“۔ اس لاﺅڈ اسپیکر سے آواز آتی رہتی ہے ”قدم بڑھاﺅ بے مروّت، ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ ”قدم بڑھاﺅ چکرم، ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ ”قدم بڑھاﺅ کچھوے ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ ”قدم بڑھاﺅ اچکّے، ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔
مرکزی اور صوبائی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے ابھی سے نجومیوں، جوتشیوں، پیروں اور پیشگوئیاں کرنے والوں سے روابط قائم کر لئے ہیں۔ انہوں نے تعویز، گنڈے کرنے والے باواﺅں کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ تعویز، گنڈوں کا کالے بکروں، کالے مرغوں اور کالے کبوتروں سے کیا تعلق ہے۔ انتخابات کا موسم آتے ہی کالے بکروں، کالے مرغوں اور کالے کبوتر کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں لیکن اس کے باوجود کالے بکروں، کالے مرغوں اور کالے کبوتروں کی مارکیٹ میں مانگ بڑھتی جاتی ہے۔ باوثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس مرتبہ کالے بکروں، کالے مرغوں اور کالے کبوتروں کی بولی ڈالروں میں لگے گی۔ بے نظیر بھٹو بھی تعویز، گنڈوں میں یقین رکھتی تھیں، پیروں کی پکّی معتقد تھیں۔ چھپ چھپ کر برقع پہن کر کبھی جلال پور جٹاں کے پیر ٹانڈا والا اور کبھی راولپنڈی، اسلام آباد کے پیر سائیں تنکہ بابا کے ہاں حاضری دینے جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ لاڑکانہ کے قریب قنبر شہر کے ایک پیر سائیں کے قدموں میں جا کر بیٹھ گئی تھیں۔ منع کرنے کے باوجود کسی نے ان کی تصویر کھینچ لی تھی۔ پیر سائیں کے قدموں میں بیٹھی ہوئی بے نظیر کی وہ تصویر پوسٹروں کی صورت میں دیواروں پر لگنے کے علاوہ ٹرکوں کے پچھواڑے پر بھی لگی تھی اور ملک بھر نے دیکھی تھی۔ وہ تصویر یورپ اور امریکہ کے جرائد اور اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔ اس تصویر کی وجہ سے بے نظیر کے بارے میں بیرون ملک روشن خیال والے تصوّر کو دھچکہ لگا تھا اور وہ کمزورالاعتقاد خاتون بن کر رہ گئی تھیں۔ جب لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر کو گولی لگی تھی تب بھی ان کے بازوﺅں پر مختلف نوعیت کے تعویز بندھے ہوئے تھے۔ بقول بچّو بھائی تعلیم کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ بطخ پر پانی کا قطرہ ٹھہر نہیں سکتا۔
میں نہیں جانتا کہ بے نظیر بھٹو نے کبھی صلاح مشورے کے لئے ممتاز جادوگر کو اپنے ہاں بلایا تھا، ورنہ شاید ہی سندھ کا کوئی ایسا سیاستدان ہو جس نے الیکشن اور الیکشن کے بعد ممتاز جادوگر سے اپنی حکمت عملی کے بارے میں مشورہ نہ کیا ہو۔ منتخب ہونے کے بعد ایک سندھی ایم این اے نے ممتاز جادوگر کو اپنے ہاں بلایا اور اسے انعامات و اکرامات سے نواز ڈالا تھا۔ انتخابات سے پہلے زائچے بنا کر ممتاز جادوگر نے اسے فتح کی نوید سنائی تھی۔ منتخب ہونے کے بعد ایم این اے نے ممتاز جادوگر سے پوچھا تھا ”زائچہ بنا کر بتاﺅ کہ میرے وزیر بننے کے کتنے امکانات ہیں؟“
ممتاز جادوگر نے زائچہ بنانے کے بعد کہا تھا ”آپ کے وزیر بننے کے امکانات روشن ہیں اگر آپ وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں“۔
وہ ایم این اے وزیر بن گیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک وزیر نے ممتاز جادوگر کو اپنے ہاں بلایا اور کہا ”میری سیکرٹری بہت خوبصورت ہے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں“۔
”میں آپ کو اپنی سیکرٹری سے شادی رچانے کا مشورہ نہیں دے سکتا“۔ ممتاز جادوگر نے کہا تھا ”آپ کے سسر صاحب صدر صاحب کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں، وہ آپ کی چورن، چٹنی بنا دے گا“۔وزیر نے دل برداشتہ ہو کر پوچھا تھا ”تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟“
”ڈیفنس میں کوٹھی لے کر آپ اپنی سیکرٹری کو اس میں رکھیں“۔ ممتاز جادوگر نے زائچہ بناتے ہوئے کہا تھا ”ابجد کے حساب سے آپ اپنی آنے والی نئی سیکرٹری پر بھی فریفتہ ہو جائیں گے،آپ کس کس سے شادی رچاتے پھریں گے؟“وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن سردار ممتاز علی بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان دنوں وفاقی وزیر غلام مصطفی جتوئی کے گھر پر کراچی میں چھاپہ پڑا تھا۔ اس واقعے نے ملک میں کھلبلی مچا دی تھی۔ غلام مصطفی جتوئی کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جتوئی صاحب کو بہت برا لگا۔ بے انتہا تحمّل مزاج اور ٹھنڈی طبیعت رکھنے کے باوجود وہ طیش میں آ گئے، انہوں نے احتجاجاً وزارت سے مستعفی ہونے کی ٹھان لی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا استعفیٰ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھجواتے، جتوئی صاحب نے مشورہ کرنے کے لئے ممتاز جادوگر کو بلایا۔جادوگر نے آنکھیں موند لیں جیسے غیبی قوتوں سے رابطے میں آ گئے ہوں۔ کچھ دیر کے بعد ممتاز جادوگر نے آنکھیں کھولیں اور جتوئی صاحب سے کہا ”آپ مستعفی ہونے کا ارادہ ترک کر دیں اب جو کچھ ہو گا، آپ کے حق میں اچھا ہی ہو گا“۔اسی شام وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ذاتی طور پر جتوئی صاحب سے معافی مانگنے ان کے گھر پہنچ گئے۔
تازہ ترین