پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کے ماڈل ٹائون والے گھر میں فلاح و بہبود کے سرکاری ادارے کا دفتر بنایا گیا تھا۔ اُس وقت میں نے اپنے ایک بیورو کریٹ دوست سے پوچھا تھا کہ اس خوبصورت محل نما کوٹھی کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا ہے۔ اسے کسی اور کام کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا تو اس نے ہنس کر کہا تھا ’’اوپر والوں کو شاید اس عمارت کی اینٹوں اور سیمنٹ سے غریبوں کے پسینے کی مہک آتی ہے‘‘۔ اس وقت جب اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کو ’پناہ گاہ‘ بنا دیا گیا ہے، اس کے کمروں میں بےگھروں، ناداروں، غریبوں کے بستر لگا دیے گئے ہیں تو میرے ذہن میں وہی سوال گونجا۔ جواب تو اِس سوال کا بھی وہی ہے۔ جو مجھے ماضی میں ملا تھا۔ اسحاق ڈار نے اِس عمل کو انتقام قرار دیا ہے۔ نواز شریف نے بھی اُس عمل کو انتقام قرار دیا تھا۔ جب نواز شریف کی کوٹھیوں میں دفاتر بنے تھے اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی تھے۔ کہتے ہیں اِسی وجہ سے شریف خاندان نے چوہدری برادران کو کبھی معاف نہیں کیا۔ مشرف کے دور میں چوہدریوں کا طوطی بولتا تھا۔ چوہدری شجاعت کچھ ماہ کیلئے باقاعدہ وزیراعظم بھی بنائے گئے۔ اس وقت پھر چوہدری صاحبان اقتدار میں ہیں۔ اُس دور میں بقول پرویز الٰہی ’’اعجاز الحق نے ان کے خلاف سازش کی تھی‘‘۔ آج کل بھی چوہدریوں کے خلاف سازشوں کا شور ہے۔ پتا نہیں چل رہا کہ کون کر رہا ہے۔ مونس الٰہی نے کہہ تو دیا ہے کہ پی ٹی آئی سے اُن کا اتحاد 2023تک برقرار رہے گا مگر پھر بھی یقین نہیں آتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا شوق ہی کچھ ایسا ہے۔ جب سے عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ لوگوں کو وزیراعلیٰ بننا بہت ہی آسان لگنے لگا ہے حالانکہ یہ ’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘۔ یہ ’’ہما‘‘ قسمت والوں کے کاندھے پر بیٹھتا ہے۔ میں بہت سے ایسے کرداروں سے واقف ہوں جو سمجھتے ہیں کہ بس ابھی عثمان بزدار گئے اور ابھی ان کی لاٹری لگی۔ باوجود اِس کے کہ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ 2023تک پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ جہاں تک عثمان بزدار کی کارکردگی کی بات ہے تو انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال جو کچھ کیا ہے، اگر اشتہار اُس کے چھاپے جاتے تو لوگ حیرت زدہ رہ جاتے مگر افسوس کہ ’’عوام آگاہی مہم‘‘ پر عمران خان نے پابندی لگا رکھی ہے۔ انہیں فوری طور پر میڈیا کو اشتہارات جاری کرنے کی ہدایت کرنا چاہئے۔ یقین کیجئے پچھلے دنوں ایک برطانوی اخبار نے پاکستانی وزارتوں کی کارکردگی پر ایک سروے شائع کیا۔ اُس کے انڈیکس میں بیشتر وفاقی وزارتوں سے حکومت پنجاب کی کارکردگی کو بہتر بتایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ پولیس کی کارکردگی کو بھی۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے میانوالی میں ایک ریپ کا کیس ہوا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف دو گھنٹوں میں پولیس نے ملزمان گرفتار کر لیے۔ میانوالی کے ڈی پی او حسن علوی کی اعلیٰ کارکردگی پر داد تو وزیراعلیٰ کو ہی دینی چاہئے۔ بےشک پچھلے ڈیڑھ سال میں انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ خاموشی سے سیاسی اور انتظامی نظام میں وہ کچھ کمال کیا جا سکتا ہے جو ان سے پہلے حکمران ڈھول بجا بجا کر کرتے رہے پر پھر بھی کر نہ سکے- گزشتہ دور میں وزیراعلیٰ کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ جی او آر کے سامنے سے گزرنے پر بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں کوئی پولیس والا دھر ہی نہ لے حالانکہ وہاں وزیراعلیٰ کی رہائش بھی نہیں تھی۔ سرکاری ملازمین کو بھی اس علاقے میں داخل ہونے کیلئے ٹیلیفون کروانا پڑتے تھے مگر عثمان بزدار نے اپنے دل سمیت دفتر کے تمام دروازے کھول دیے- وہ عام آدمی ہیں اور عام آدمیوں کی طرح دور دراز کے دیہاتیوں سے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔
پنجاب میں ڈویلپمنٹ ایجنڈا کی بات کریں تو اس دور کی مساوی ترقی کی مثال ماضی میں نہیں ملتی- ڈیڑھ سال میں 8نئی یونیورسٹیوں، 9نئے اسپتالوں اور 10نئے اکنامک زونز پر کام آسان نہیں اور پھر ان کا دامن بھی صاف ہے اور ان کے ناقدین بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگاتے۔ البتہ کچھ ناقدین کو ڈیرہ غازی خان اور میانوالی سے تکلیف ضرور ہے۔ وہاں بننے والے منصوبے انہیں برداشت نہیں ہو رہے- جہاں تیس چالیس سال سے کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں بنا۔ وہاں اب اگر کام شروع ہو گئے ہیں تو بڑے بڑے شہروں میں اربوں کھربوں کے پروجیکٹ کرنے والوں کو غصہ نہیں آنا چاہئے۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں سے سب واقف ہیں اور جنوب میں ڈیرہ غازی خان تو وہ ضلع ہے جو ڈویلپمنٹ انڈکس پر 34ویں نمبر پر ہے، مطلب محرومیوں کے عروج پر- جہاں کبھی بجٹ کی دیگ کی کھرچن تک نہیں پہنچی- شکر ہے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے اُس علاقے کی بھی سنی گئی ہے۔ پھر گورنر سرور اور چوہدری پرویز الٰہی جیسے تجربہ کار سیاست دانوں کو ساتھ لیکر چلنا، پارٹی میں موجود تنقید برائے تنقید کرنے والوں کو سنبھالنا، تمام ایم پی ایز سے فرداً فرداً تعلق رکھنا۔ ان کے مسائل سننا اور انہیں حل کرانا یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ پہلے جو وزیراعلیٰ ہوتے تھے کہ انہیں پرچیوں پر لکھ کر سیکریٹری میٹنگز میں بتا رہے ہوتے تھے کہ کس ایم پی اے کا کیا نام ہے، پھر بھی لطیفے بن جاتے تھے۔ کسی جٹ کو رانا صاحب کہا جا رہا ہوتا تھا اور کسی چوہدری کو ملک صاحب کہہ کر پکارا جارہا ہوتا تھا۔
مجھے گزشتہ روز اپنے میانوالی شہر کے ایم پی اے اور بلدیات کے پارلیمانی سیکریٹری ملک احمد خان نے ایک بریفنگ دی کہ میانوالی میں پنجاب حکومت نے کیا کیا پروجیکٹس شروع کر دیے ہیں۔ یقین کیجئے میں حیرت زدہ ہو گیا۔ آرٹ سے ایجوکیشن اور ایجوکیشن سے صحت تک، کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں کام شروع نہ ہوا ہو۔ میانوالی سرگودھا ڈبل روڈ کی تعمیر کا معاملہ تو چالیس سال سے التوا میں پڑا ہوا تھا۔ موٹروے سے میانوالی تک اور میانوالی سے ملتان تک جانے والے روڈ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے سرائیکی علاقے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔