• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر ہے کہ کراچی میں کٹھ پتلی کا میلہ ہو رہا ہے۔ یہ میلہ تین دن جاری رہے گا۔ اس کا اہتمام شہر کے میئر نے کیا ہے۔ اس میں کراچی کی آرٹس کونسل بھی شریک ہے۔

خبر میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ بچے بہت لطف اندوز ہوں گے۔ مجھے اس پوری خبر میں یہی ایک بات اچھی لگی۔ شکر ہے ہر شام طرح طرح کی شامیں منانے والوں کو بچوں کا خیال آیا۔

ہمارے معاشرے میں کہنے کو تو بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے جی بہلانے کے اسباب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک لٹریری فیسٹیول میں دیکھا تھا جہاں بچوں کے لیے الگ شامیانہ لگایا گیا تھا اور ان کے لیے قصے کہانی، گیت اور نغموں اور ڈراموں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ آخر کیوں نئی نسل کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے۔

سارا زور مشاعروں اور ادبی کانفرنسوں پر ہے جن میں جوان تو نظر آتے ہیں، بچوں کا داخلہ یوں بند ہے کہ وہ کس لیے آئیں گے، کیونکر بیٹھیں گے اور سپاٹ اور بے روح تقریریں کیوں سنیں گے۔ ابھی ماہ دسمبر میں کراچی آرٹس کونسل کی مشہور و معروف اردو کانفرنس میں ایک روز عجب نہیں، معصومانہ واقعہ ہوا۔

کانفرنس میں ہر سال کے معمول کے مطابق بچوں کے ادب کے عنوان سے بھی ایک سیشن رکھا گیا تھا جس میں لوگ کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ تقریریں بھی ہر بار وہی ایک جیسی ہوتی ہیں کہ لوگ بچوں کا ادب لکھتے نہیں، پبلشر چھاپتے نہیں، دکاندار بیچتے نہیں اور والدین خریدتے نہیں۔

اور یہ کہ جو ادب دستیاب ہے وہ نئے زمانے کی نئی نسل کے ذوق سے میل نہیں کھاتا۔ اس سال بھی نشست کا موڈ کچھ ایسا ہی تھا۔ شہر کے تیس چالیس عمائدین سن رہے تھے اور اسٹیج پر وہ پانچ چھ خواتین اور حضرات بیٹھے تھے جن کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے سے دلچسپی ہے۔ اجلاس جاری تھا کہ اچانک ہال کا دروازہ کھلا اور چھ سات بچے ہنستے کھلکھلاتے، باتیں کرتے اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہال میں داخل ہوئے۔

شاید والدین یہ سوچ کر کہ وہاں بچوں کا جی بہلانے کا سازو سامان بھی ہوگا، انہیں ساتھ لیتے آئے۔ میں پچھلے دس گیارہ سال سے اس اردو کانفرنس میں شریک ہوتا رہا ہوں۔

اس روز میں نے پہلی بار اس اجتماع میں بچوں کو آتے دیکھا۔ اتفاق سے میں ہی صدارت کی کرسی پر بیٹھا تھا، میں نے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے اعلان کیا کہ خواتین و حضرات، مبارک ہو، ہال میں وہ آگئے ہیں جن کی خاطر یہ نشست سجائی گئی ہے۔

بچے اپنے والدین کی انگلیاں تھامے سب سے پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ میں نے کارروائی روکی اور بچوں سے کہا کہ وہ آگے آکر اگلی نشستوں پر بیٹھیں۔ وہ خوشی خوشی آگئے۔ اب اجلاس کا موڈ بدل گیا اور میں نے کہا کہ ہم لوگوں نے بچوں کے لیے جو کچھ لکھا ہے انہیں سامنے بٹھا کر وہ سنایا جائے۔

چنانچہ میں نے اپنے لکھے ہوئے نرسری رائم اور گیت سنائے۔ میرے ساتھ محمود شام بھی تھے۔ انہوں نے جھٹ بچوں کی نظموں کی اپنی کتاب منگائی اور کئی چیزیں سنائیں۔ کارروائی کے بعد عموماً اسٹیج پر خاص خاص لوگوں کی تصویریں اتاری جاتی ہیں، ہم نے سارے بچوں کو بھی اوپر بلا لیا۔

پہلی بار بچے اور خاص لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے اور یوں یہ نشست بڑے ہی خوش گوار موڈ میں ختم ہوئی۔ حاضرین میں ہمارے دوست علی معین بھی تھے، وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگلے برس اس نشست میں وہ پورے ہال کو بچوں سے بھر دیں گے۔

وہ تو اگلے برس دیکھیں گے، اس وقت جس کٹھ پتلی میلے کی بات چلی تو ذہن بہت پیچھے تک گیا۔مجھے یاد ہے گلی میں کٹھ پتلی والے آواز لگایا کرتے تھے کہ جو چاہے اپنے گھر میں کٹھ پتلی کا تماشا کرالے۔

جس گھر والوں سے معاملہ طے ہوجاتا تھا ، وہ لوگ وہاں ایک کٹھ پتلی چھوڑ جاتے تھے گویا معاہدہ ہو گیا ہے۔ شام کو وہ لوگ آکر عموماًچارپائیاں کھڑی کرکے اور چادریں پھیلا کر اسٹیج بناتے تھے جس میں روشنی کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ سامنے تماش بین بیٹھ جاتے تھے اور کٹھ پتلی والے پردے کے پیچھے کھڑے ہوکر ڈوریوں کی مدد سے پتلیاں نچاتے اور طر ح طرح کی اچھل کود دکھاتے تھے۔

ان کٹھ پتلیوں کے نام بھی ہوتے تھے مثلاً پرانے وقتوں کی مشہور گلوکارہ گوہر جان نام کی پتلی بھی ہوتی تھی جسے آج کے تماشا گروں نے رقاصہ بنا دیا ہے۔ ان پتلیوں کے مکالمے ان کی ڈوریاں ہلانے والے ہی ادا کرتے تھے جس کے لیے وہ منہ میں کوئی شے ڈال کر عجیب سی آواز نکالا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ رات دیر تک جاری رہا کرتا تھا یہاں تک کے چھوٹے بچے اونگھتے اونگھتے وہیں سو جاتے تھے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تماشا دکھانے والے عموماً راجستھان کے خانہ بدوش ہوا کرتے تھے۔ اُسی علاقے کے لوگ سانپ، بھالو اور بندر کے ناچ بھی دکھاتے تھے۔

کیسے فرصت کے دن تھے۔ مجمع لگانے والے شہر شہر گاؤں گاؤں گھوما کرتے اور روزی کماتے تھے۔ دنیا کے کئی علاقوں میں کٹھ پتلی نچانے کا رواج اب تک ہے۔ ہندوستان کے خانہ بدوش اس معاملے میں مشہور ہیں اور ان کے طائفے مغربی ملکوں میں بھی جاتے ہیں مگر یوں نظر آتا ہے کہ آج کا اسمارٹ فون ان جی بہلانے والے تماشوں کو کھا جائے گا۔

اب دیکھئے کہ کٹھ پتلی کا تماشا ختم ہوا، مداری کو بھی ختم ہی سمجھئے، بہروپیے طرح طرح کے بھیس بدل کر آیا کرتے تھے، کبھی پوسٹ مین اور کبھی پولیس مین۔ لوگ انہیں دو پیسے دے دیا کرتے تھے۔ اب یہ سارے کام آج کا انٹرنیٹ کرے گا۔ طرح طرح کے بھیس بھی بدلے گا اور دو پیسے بھی نہیں لے گا۔

تازہ ترین