• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی ایسی کوئی زبان اور خطہ نہیں ہے جہاں کسی نہ کسی صورت ایسوپ کی حکایات نہ پہنچی ہوں۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ان حکایات کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان حکایتوں نے جہاں دنیا بھر کے ادب کو متاثر کیا ہے وہاں انسانی معاشروں کی اُن سدا بہار حقیقتوں کو بھی بیان کیا ہے جو ہر دور اور ہر معاشرے پر ثبت کی جا سکتی ہیں۔ صدیوں پرانی ہونے کے باوجود یہ حکایتیں آج بھی تازہ، معنی خیز اور نئی ہیں۔ ایسوپ کا زمانہ 620قبل از مسیح تھا، وہ ایک غلام لیکن علم و حکمت میں اپنے زمانے کا ایک عالم تھا۔ اس کا تعلق یونان کے علاقہ ایشیائے کوچک سے تھا۔ ایسوپ کی ایک حکایت یوں ہے کہ ’’ایک جنگل میں تمام چرند پرند جشن منا رہے تھے، جشن منانے والوں میں قریبی تالاب کے مینڈک بھی شامل تھے، ایک بزرگ مینڈک جو قریب ہی بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا، نے نوجوان مینڈکوں سے پوچھا کہ تم کس بات کا جشن منا رہے ہو؟ نوجوان مینڈکوں نے پُرجوش انداز میں کہا آپ کو پتا ہے کہ ’’سورج شادی کر رہا ہے‘‘ یہ سن کر بزرگ مینڈک نے کہا بیوقوفو، اس میں تمہارے لئے خوشیاں منانے کا کیا جواز ہے، تمہارے تالابوں کو خشک کرنے کیلئے کیا ایک ہی سورج کافی نہ تھا، ذرا سوچو اگر اس نے شادی کر لی تو پھر ہم سب کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سورج، اس کی بیوی اور پھر اس کے ہونے والے بچے مل کر ہمارا تالاب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تالابوں کو ریگستانوں میں بدل دیں گے چنانچہ یہ شادی ہمارے لئے بربادی اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے موت کا پیغام ہے‘‘۔ اس حکایت میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ واقعی دنیا میں اَنگنت احمق لوگ انہی باتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو خود ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

ایسوپ کی طرح ابو محمد مصلح الدین عبداللہ جنہیں عُرفِ عام میں شیخ سعدیؒ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی حکایات بھی گزشتہ آٹھ سو سال سے ہر دور میں اپنی معنویت کے اعتبار سے تہلکہ مچائے ہوئے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ کو انتہائی شہرت حاصل ہے، ’گلستان‘ کی ایک حکایت کے مطابق ’’لوگوں نے دیکھا کہ ایک لومڑی بڑی گھبرائی ہوئی بھاگی جا رہی ہے، اُسے روک کر اس کی پریشانی و اضطراب کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولی! بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ تمام اونٹوں کو بیگار کیلئے پکڑ لیا جائے، اسی لئے میں جان بچا کر بھاگ رہی ہوں۔ لوگوں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ بھلا تجھے اونٹ سے کیا نسبت ہے؟ لومڑی نے جواب دیا لوگو! حاسدوں سے بچ کر رہنا چاہئے، اگر کسی حاسد نے بادشاہ کے کان میں ڈال دیا کہ میں لومڑی نہیں، اونٹ ہوں تو مجھے خواہ مخواہ پکڑ لیا جائے گا، پھر بھلا بادشاہ سے کون کہے گا کہ تحقیقات کریں، چلیں اگر تحقیقات ہوں بھی تو جب تک فیصلہ سامنے آئے گا، اس وقت تک میں تو ختم ہو چکی ہوں گی‘‘۔

ان دونوں حکایات کی روشنی میں پاکستان کی پچھلے ڈیڑھ سال سے جو سیاسی، معاشی اور مجموعی صورتحال ہے اُسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ’ہمارا سورج‘ ایک نہیں بلکہ کئی شادیاں کر چکا ہے اور اب اُس کے بھائی بند مل کر اس ملک کے رہے سہے پانیوں کو سُکھا کر بیابان بنا کر دم لیں گے۔ 2017میں پاکستان کا جی ڈی پی 5.7فیصد تھا اور بتدریج گھٹتے ہوئے یہ شرح شنید ہے کہ مئی یا جون 2020تک 2.4فیصد تک گر جائے گی۔ حالیہ قرضوں کا بوجھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ موجودہ حکومت جو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے جیسے واشگاف نعرے اپوزیشن دور میں لگایا کرتی تھی، نے اگست 2018سے ستمبر 2019کے دوران 1.8ارب ڈالر کے قرضے لیے۔ مجموعی طور پر 9کھرب روپے سے زیادہ کے قرضے حاصل کیے گئے ہیں۔ ملک میں تیزی سے تنزلی کی طرف جاتی شرح نمو کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں پاکستان معاشی، سیاسی و سماجی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ اب یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر پاکستان کی معاشی صورتحال یونہی رہی تو اس سے بیروزگاری میں اضافہ اور سرمایہ کاری میں شدید کمی آئے گی۔ آج پاکستانی روپیہ اپنی بےتوقیری کی بدترین سطح پر ہے، امریکی ڈالر 155روپے اور پونڈ 200روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا توازن بری طرح متاثر ہے، حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں جتنے وہ خرچ کر رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ مہنگائی کے تمام ریکارڈز ٹوٹ چکے ہیں۔ آٹا مہنگا، چینی، دالیں، بجلی، گیس، پٹرول اور ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا عام آدمی کی پہنچ سے انتہائی دور ہو چکی ہیں۔ اسپتالوں، تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر، پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل ملز سمیت ہر جگہ چہرے تو بدل چکے، نظام نہیں بدلا۔ نوکر شاہی کا وتیرہ بدلا نہ سیاسی روایات میں تبدیلی آئی۔ صحافت کا گلا گھونٹ کر ہزاروں صحافیوں و کارکنوں کو نوکریاں دینے کے بجائے بیروزگار کر دیا گیا۔

کسی بھی ملک کی معیشت ہی وہ بنیادی اشاریہ ہے جس سے اس کی مجموعی حالت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ معاشی استحکام سے ہی ملکی استحکام، عوامی استحکام اور سیاسی و سماجی استحکام کی تنزلی یا بہتری کی امید یا نوید دی جا سکتی ہے لیکن شومئی قسمت پاکستان کی حالیہ سیاسی و سماجی صورت گری انتہائی سے زیادہ مایوس کن ہے اور اس کی سب سے کلیدی حکومت کا آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضہ لینا پولیٹکل وچ ہنٹنگ ہے۔ چنانچہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے میں آئی ایم ایف اور حکومت دونوں شامل ہیں کیونکہ اسی مالیاتی ادارے کے کہنے پر حکومت نے روپے کی قدر میں کمی اور ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کیا۔ آج عوام میں شدید اضطراب ہے۔ یوں لگتا ہے شیخ سعدیؒ کی حکایت والی لومڑی کی یہ تشویش درست تھی کہ جس ملک میں ’مائٹ از رائٹ‘ کا بول بالا ہو وہاں لومڑی کو اونٹ بتا کر پکڑا بھی جا سکتا ہے اور بیگار پر لگایا بھی جا سکتا ہے۔ ایسوپ کی بیان کردہ حکایت کا اشارہ بھی بڑا واضح ہے کہ بسا اوقات نادان لوگ اپنی ہی بربادی پر جشن منا رہے ہوتے ہیں۔ لومڑی اور بزرگ مینڈک واقعی دانا تھے۔

تازہ ترین