• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دکھ اور اےسا کہ روح تک زخمی ہو گئی، درد دل میں اترتا چلا گےا۔ مداوا کوئی نہیں۔ مداوا کرنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ ظالموں کے ہاتھ رکتے نہےں،روکنے والا کوئی ہے ہی نہیں اور دکھ ہے کہ ہر سو پھیلا جا رہا ہے۔ کوئٹہ، کراچی، لاہور، پشاور کوئی بچا نہیں ہے، اگر کوئی بچا ہے تو کون جانے کب تک۔کہاں پھر کارروائی ہو، کہاں بے گناہ لوگ خاک و خون میں نہلائے جائےں، کب ہنستی بستی بستےاںاجاڑ دی جائےں۔دھماکے کرنے والوں، قاتلوں، آگ لگانے والوں کو لگتا ہے بالکل آزادی ملی ہوئی ہے، انہےں روکنے والوں نے اپنے ہاتھ روکے ہوئے ہیں، سنگ و خشت مقےد ہےں اور سگ آزاد۔
یہ ساری ذمہ داری کس کی ہے؟ بار بار بحث ہوتی ہے، گفتگو رہتی ہے مگر کیا بحث مباحثہ اور گفتگو کی ضرورت ہے؟ کیا یہ کوئی ایسا معاملہ ہے کہ اچانک سامنے آیا ہو؟ کوئی ایسی بیماری جس کا پہلے پتہ نہیں تھا؟ امن و امان برقرار رکھنا، مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا، مظلوموں کی داد رسی کرنا ہمیشہ سے، جب سے انسانی تہذیب وجودمیں آئی ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکمران اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکیں،نہ کریں، تو ان کا حق حکمرانی ختم ہو جاتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب ظلم بڑھنے لگا، حد سے زیادہ، خون نا حق بہنے لگا تو حکمران سولیوں پر لٹکا دیئے گئے، ان کی گردنیں اتار لی گئیں۔ وہ بادشاہوں کے دور تھے، جمہورےت ابھی آئی نہیں تھی۔ آئی تو بہت خوبیاں لائی، سو خرابیاں بھی ہوں گی، ان پر بحث مباحثہ بھی ہو سکتا ہے، ایک خوبی مگر اس کی سب پر بھاری ہے، احتساب، جواب دہی عوام کے سامنے، نا اہل ہو تو حکمران فارغ کئے جاسکتے ہےں۔ اصل اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہے، انہیں یہ موقع ایک خاص مدت میں مل سکتا ہے ےا پہلے بھی۔ بدقسمتی یہ کہ ہر جگہ ہمیشہ ےہ نہیں ہوتا، اس ملک میں تو کم ہی ہوتا ہے، بہت ہی کم ۔
سارا ملک ہی افراتفری کا شکار ہے۔حالات ٹھیک کرنے کی کوششیں نظر نہیں آتیں۔کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کو گولیوں کا نشانہ بناےا جا رہا ہے، دھماکے سے اڑاےا جا رہا ہے، ظلم کرنے والے ہاتھ نہیں پکڑے گئے۔ کراچی میں بم دھماکہ ہوا۔پچاس لوگ ہلاک اور سو ڈیڑھ سو گھر تباہ کر دیئے گئے۔ مرنے والوں میں سب ہی شامل تھے، بیس پچیس سنّی ہوں گے، بیس پچیس شیعہ، اردو بولنے والے اور پشتون، سب ہی انسان تھے، سب ہی نشانہ بنے، سب دکھی کر گئے۔ دکھ اس بات کا بھی کہ حقائق سامنے نہیں لائے گئے۔ وہ کون تھے جو دھماکہ کر کے غائب ہو گئے؟ وہ کون تھے جو راستہ روک کر کھڑے ہو گئے کہ پولیس، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ تک کو متاثرہ علاقہ تک جانے نہیں دیا گےا؟ کون ہے جس نے سارے معاملات پر قبضہ کرلیا تھا؟ مقاصد کےا تھے؟ اتنے سارے تحقیقاتی ادارے، خفیہ ایجنسیاں، کچھ تو معلوم کریں، کچھ تو بتائیں۔
اور ابھی یہ دکھ تو کےا ختم ہوتا کہ زخموں پہ مرہم رکھا گےا، نہ بے آسرا لوگوں کے سروں پر سایہ فراہم کےا گےا کہ لاہور میں مسیحی برادری پر قیامت ڈھادی گئی۔ پونے دو سو گھر اور دکانیں جلا دی گئیں، پیسہ پیسہ جمع کر کے بنائے گئے چھوٹے موٹے سائبان لمحوں میں وحشت کا شکار ہوگئے، تباہ و برباد کردیئے گئے۔ بہانہ توہین رسالت کا، اللہ اور اس کے رسول کا نام اور عمل ان کے احکامات کے بالکل برعکس۔ مگر یہ تو بہانہ تھا، مقصد غالباً کچھ اور۔ جس پر گستاخی کا الزام تھا وہ تو گرفتار کر لیا گےا، اب قانون جانے اور ملزم۔ تحقیقات کی ضرورت بہت شدید ہے۔ بادامی باغ کا یہ علاقہ ایک بڑی کاروباری جگہ ہے۔ بڑی دکانیں ہیں، ورکشاپ ہیں، صنعتیں ہیں۔ یہاں کی زمین بڑے کاروبار کی وجہ سے بہت قیمتی ہو گئی ہے۔ یہاں قائم مسیحی آبادی آج کی نہیں عرصہ سے خدا کے یہ فراموش کردہ بندے یہاں رہتے آئے ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں گزرگئی ہیں، جو گھر ظالموں نے تباہ کردیئے، اجاڑ دیئے، ان کی بنےادوں میں ان کے پُرکھوں کی خون پسینہ کی کمائی شامل تھی، سب ظالموں کی نذر ہو گئی،کھنڈر بنا دی گئی۔ ذمہ دار کون ہے؟ حکمران، پولس بھی تو ان کے ماتحت ہے اور اسی لئے جو کچھ ہوا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مبینہ ملزم تو گرفتار کر لیا گےا پھر احتجاج کی کےا ضرورت تھی؟ احتجاج کرنے والے کون تھے؟ اور پھر یہاں رہنے والوں سے ان کے گھر خالی کرانے کی کےا ضرورت تھی؟ یہ ضرورت کس نے محسوس کی؟ اس بزرجمہر نے جانیں تو شاید بچالیں کہ ان ظالموں سے بعید نہ تھا کہ زندہ لوگوں کو بھی جلا دیتے، لیکن جو دراصل کرنا چاہئے تھا، وہ نہیں کےا گےا۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار ڈیڑھ دو سو گھروں کی اےک بستی کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ان کے حقیقی مقام کا تعین کےا جانا چاہئے، جہاں وہ بیٹھے ہیں وہ مقام بہرحال ان کا نہیں ہے۔
ان ظالموں کے ہاتھوں اجڑنے والے پاکستانی فوری طور پر سارے پاکستانیوں کی توجہ کے مستحق ہیں، تما م لوگوں کو ان کی مدد کےلئے آگے آنا چاہئے۔ ظالموں کی مذمت کی جا رہی ہے اور ہر طرف سے۔ یہ ایک اچھی بات ہے ، ایک مثبت رویہ ہے۔ یہ سب لوگ پاکستانی پہلے ہیں، دوسری شناختیں تو بعد کی ہیں۔ ادھر جو لوگ اس ظالمانہ کارروائی میں بھی اپنا مقصد تلاش کر رہے ہیں، انہیں اس قابل اعتراض رویہ سے گریز کرنا چاہئے۔ ظالموں کو ”اسلامسٹ“ کہنا خود ایک بدنیتی ہے۔ اسلام غیر مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے، اس سے ہٹ کر جو لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اسلام نہیں۔ انتہا پسند کہاں نہیں ہوتے، کوئی بھی مذہب کسی کو بھی غےر انسانی افعال کی اجازت نہیں دیتا۔ ”اسلامسٹ“ کی اصطلاح انتہا پسندوں کے لئے استعمال کر کے بعض حلقے اپنے دوسرے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان مقاصد کو مذموم بھی کہا جا سکتا ہے، وہ اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایک خاص سطح پر وہ بھی انتہا پسند ہیں۔ سپرےم کورٹ نے دیگر کئی معاملات کی طرح لاہور سانحہ کا بھی ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ (حکمرانوں کو تو کسی معاملہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، سب معاملات سپریم کورٹ ہی کو دےکھنے پڑ رہے ہیں) توقع ہے کہ حقائق جلد سامنے آ جائیں گے، مذہبی انتہا پسند ملوث ہوں تو انہیں سزا دی جائے، عبرت ناک۔ مفاد پرست، لینڈ مافیا ےا جو بھی ہو انہیں بھی قرار واقعی سزا دی جائے اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ ہی بعض دوسرے معاملات بھی دیکھ رہی ہے۔ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال بھی اسی کے زیر غور ہے اور ابوالحسن اصفہانی روڈ پر بم دھماکے پر بھی اس نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ساتھ ہی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بھی بڑھائی ہے۔
اب مزید پندرہ عدالتیں سنگین مقدمات کی سماعت کریں گی۔ ان عدالتوں کی ضرورت شاید اس لئے بھی ہے کہ کراچی میں آئندہ ہفتے دس دن میں شرپسند عناصر کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کا امکان ہے۔ فوج بھی اس کارروائی مےں تعاون کرے گی۔ ہو سکتا ہے اسی کی نگرانی میں ہو۔ توقع یہ ہے کہ بلا امتیاز شرپسندوں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کے خلاف اقدامات کئے جائےں گے اور پکڑے جانے والوں کے مقدمات انسدادِدہشت گردی کی عدالتوں میں چلیں گے۔ عبوری حکومت کا پہلا کام شاید ےہی ہو مگر بات صرف کراچی کی نہیں، شرپسندوں، انتہا پسندوں، تخریب کاروں کی تلاش سب جگہ ہو، سب مقامات ان کے وجود سے پاک کر دینے چاہئیں۔ ےہی وقت کا تقاضا ہے ےہی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
تازہ ترین