• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی آئینی مدت کے آخری ایام پوری کرتی زرداری۔ پرویز حکومت اپنی مکمل نا اہلیت، ریکارڈ کرپشن، عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافے اور انتہا کی اقرباءپروری کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تلخ باب بن کر ختم ہونے کو ہے۔ اس کا ایک بڑا تشخص یہ بھی بنا کہ یہ جدید جمہوری دنیا کی پہلی حکومت تھی جو اپنے قیام سے، ساڑھے تین سال تک اپوزیشن کی روایتی بے رحمانہ تنقید سے محفوظ رہی، یوں بڑے سائز کی اپوزیشن بھی فرینڈلی کہلائی۔ اگرچہ پی پی پنجاب حکومت میں اتنے ہی عرصے کے لئے شریک اقتدار رہ کر بے اختیار رہی، لیکن مخصوص حکومتی مزے والے پہلوﺅں سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ زرداری حکومت نے بڑی چالاکی سے یہ بھانپ کر کہ، اپوزیشن، ایسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور سب سے بڑھ کر عوام اسے ہر حالت میں آئینی مدت پوری کرانے پر تلے بیٹھے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک گل کھلایا، یہاں تک کہ یہ ریاستی اداروں کی مزاحمت پر اتر آئی اور عوامی سروس کے قومی ادارے بدنظمی اور کرپشن کی دلدل میں پھنس کر تباہ ہونے لگے۔ آئینی مدت پوری کرتی حکومت نے بڑی دیدہ دلیری سے اپنے زیر اثر قومی اداروں (جیسے نیب، ایف آئی اے، وزارت قانون وغیرہ) کو ان اداروں سے ٹکرا دیا جو انتخاب اور تشکیل حکومت سے قبل آزاد اور غیر جانبدار حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ان میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے با امر مجبوری، انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی سمت درست کرنے کی اپنی سی کوشش کی، لیکن حکومت کے ارادے تو ان اداروں کے آئینی اور عوام کے باکمال جمہوری رویوں کے برعکس، غیر آئینی اور غیر جمہوری ہوتے گئے حتیٰ کہ اس نے اپنے آخری ماہ میں اپنے ہی تشکیل دیئے گئے الیکشن کمیشن کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔ کمیشن کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر پھر ملک گیر رائے عامہ کی قدر کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد ممکنہ حد تک آئین کے مطابق کرانے کے لئے پُر عزم ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے انتخاب کو آزاد، غیر جانبدار اور شفاف بنانے کے لئے ایک اصلاحی پیکیج بھی تیار کیا ہے۔ جس کا مرکز و محور آئین کی آرٹیکلز 63-62 کا زیادہ سے زیادہ اطلاق ہے۔ واضح رہے کہ ہر دو آئینی دفعات میں کسی شہری کے انتخابی امیدوار بننے کی مطلوبہ اہلیت (شرائط) کو واضح کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ امیدوار صادق و امین ہو۔ روایتی سیاست دان اس کی متفقہ تشریح کو ناممکن قرار دے کر آرٹیکلز 63-62 کو بودہ کہہ کر اس کی شفافیت سے متعلق شرائط سے جان چھڑانے پر بلا امتیاز پارٹی متحد و متفق ہیں اور الیکشن کمیشن کے عزائم کی مشترکہ غیر اعلانیہ مزاحمت پر کمر بستہ بھی۔ سو، الیکشن کمیشن نے ٹیکس چوروں، قرض خوروں اور جعلسازی کے مرتکب کھلنڈرے سیاست دانوں کا پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ روکنے کے لئے آئین کی روشنی میں انتخابی پراسس کو شفاف بنانے کی جو اصلاحات کی ہیں، ان کا جائزہ لینے والی پارلیمنٹ کی کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین، وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے ملاقات کر کے انہیں آگاہ کیا کہ اراکین پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بھجوائے گئے نامزدگی کے مسودے پر کافی اعتراضات ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے امیدوار بننے کے درخواست دہندگان کی سخت سکروٹنی کے لئے انہیں کاغذات نامزدگی میں آمدنی، بینک قرضوں، ٹیکس ادائیگیوں، تعلیمی اسناد، بیرونی دوروں، کریمنل ریکارڈ سمیت دیگر معلومات کی فراہمی کا پابند کیا ہے، جس پر سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں، انہوں نے متعدد شرائط کو سرے سے ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں آخر یہ اعتراضات کیوں ہیں؟ مانا کہ صادق و امین کی متفقہ تشریح ممکن نہیں لیکن ٹیکس، قرضوں اور تعلیمی اسناد کا معاملہ تو دستاویزات کی فراہمی سے منسلک ہے اور ان کا شفاف ہونا بھی صادق و امین ہونے کا ایک بڑا فیصلہ ہو گا۔ آخری عام شہریوں کے بھی تو یہ ریکارڈ ہیں، نہ ہونے اور ان میں گڑبڑ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، تو وہ شہری جو خود کو لاکھوں شہریوں کی نمائندگی کا اہل سمجھتے ہیں اور نمائندگی کرنے کے لئے انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لینا چاہتے ہیں، آخر وہ کیوں نہ انتخاب سے پہلے الیکشن کمیشن کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ٹیکس چور نہیں، قرض خور نہیں اور ان کی تعلیمی اسناد جعلی نہیں؟ سیاست دان کم از کم ان تین شرائط کو تسلیم کر لیں کہ وہ ان سے متعلق درست معلومات کی فراہمی کے پابندی کریں گے اور سکروٹنی کے مرحلے میں کلیئر ہونے کے بعد ان کی فراہم کردہ ان معلومات میں سے ایک بھی غلط ثابت ہوئی تو وہ قانون کے مطابق کارروائی کے مستحق ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کان کھول کر سن لیں کہ متفقہ الیکشن کمیشن کی شفاف الیکشن کو یقینی شفاف بنانے والی مجوزہ اصلاحات کو مسترد کر کے وہ روایتی بیان حلفی کے ذریعے امیدوار بنانے پر اصرار کریں گے تو اس کا شدید ردعمل ہو گا۔ اگر تنگی اوقات اور پارلیمانی کمیٹی کی مزاحمت کے باعث الیکشن کمیشن آئین کی آرٹیکلز 63-62 کے اطلاق میں ناکام ہو کر الیکشن کرانے پر مجبور ہو گیا تو یہ الیکشن ہرگز آئینی نہ ہوں گے اور نہ یہ شفاف ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن اعلان کر چکا ہے کہ ”صدر نے 11 مارچ تک الیکشن کمیشن کے تیار کردہ نئے کاغذات نامزدگی کے مسودے کی منظوری نہ دی تو پرانے فارم کی چھپائی 12 مارچ سے شروع کر دیں گے“ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے میڈیا پر واضح کیا کہ ”کمیشن کے پاس زیادہ وقت نہیں، لہٰذا کاغذات نامزدگی کی چھپائی 12 مارچ سے شروع ہو جائے گی۔“ گویا فقط ایک صفحے کے روایتی بیان حلفی پر ہی درخواست دہندگان انتخابی امیدوار بن جائیں گے۔ یوں آئین کی آرٹیکلز 63-62کو ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ پھر اس خوشی فہمی میں مرضی کے دور جمہوریت کا آغاز ہو گا کہ نئی منتخب حکومت بھی این آر او زدہ جمہوری حکومت کی طرح آئینی مدت پوری کر لے گی، لیکن یقینا نہیں کرے گی۔ اب یہ فیصلہ ہو کر رہے گا کہ اس ملک میں جسے ہم نے اسلامی جمہوریہ کا نام دیا ہے سب شہریوں کے لئے ایک قانون ہو گا؟ یا سیاست دانوں کے لئے کچھ اور عام شہریوں کے لئے دوسرا؟ بلکہ سیاست دانوں کے لئے ہو گا ہی نہیں اور قانون کا اطلاق صرف عوام پر ہو گا۔ الیکشن کے انعقاد پر عوام کی سنجیدگی کا غلط فائدہ ہرگز نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ الیکشن کمیشن تو الیکشن کا انعقاد کرا کر اپنی ذمہ داری بھگتا دے گا اور فقط یوں ہی سرخرو ہونے کی کوشش کرے گا کہ اس نے تو شفاف انتخاب کے لئے آئین کی آرٹیکلز 63-62 کی روشنی میں کاغذات نامزدگی کا اصلاحی مسودہ دیا تھا، جسے پارلیمنٹ نہ مانی لیکن عوام انتخابات کے بعد اس پوزیشن میں ہوں گے کہ انتخاب کی آئینی حیثیت کو عدلیہ میں چیلنج کر دیں۔ اس کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیں۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہو گی کہ یہ متفقہ طور پر تشکیل دیئے گئے الیکشن کمیشن کی مزاحمت کرتے ہوئے سیاست دانوں نے اپنی مرضی کے کرائے ہیں۔ سیاست دان تو خود کو آئینی انتخاب کا پابند نہیں سمجھ رہے تو عوام غیر آئینی انتخاب کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو آئینی اور جمہوری کیونکر تسلیم کریں گے؟ نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ جو ہو گا اس سے بچنے کے لئے وہ سیاست دان جو کھل کر آرٹیکلز 63-62 کے مطابق انتخابی امیدوار بنانے کے بیانات دے چکے ہیں ابھی ہی بریک لگا کر الیکشن کمیشن کے اصلاحی کاغذات نامزدگی کو تسلیم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں، وگرنہ جمہوری عمل میں بگاڑ اور اس کے نتائج کی ذمہ داری فقط اور فقط ان پر عائد ہو گی اس ضمن میں بلاول زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان تو اپنی پوزیشن بلاتاخیر واضح کریں۔
تازہ ترین