• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”انگریز بہادر“ نے اس خطے کے لوگوں کو ریل، ڈاک، تار یعنی ٹیلی گراف ،ٹیلی فون ،سکوٹر، موٹر کار، ریڈیو، بجلی، پولیس، ہوائی جہاز، محکمہ تعلیم، میڈیکل ، ایجوکیشن نہ صرف انسانوں کی بلکہ جانوروں کی میڈیکل، ایجوکیشن، سکولز، کالجز، یونیورسٹیوں اور فلم وغیرہ سے متعارف کرایا، لسٹ تو بہت لمبی ہے لیکن اتنا بتانا ہی کافی ہے۔
ہم نے ”انگریز بہادر“ سے بدلہ لینے کے لئے ان کے جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ انگریزوں کے قائم کردہ بہترین اداروں کو تباہ کردیا جائے۔ اس طرح ہمیں ذہنی سکون نصیب ہوگا چنانچہ ہم نے سب سے پہلے ریلوے کو تباہ کیا جو کبھی اس ملک کا بہترین آمد ورفت کا نظام تھا۔ میرے سامنے ایک تصویر پڑی ہے جس میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے لاہور جانے کے لئے ٹرین پر سوار ہونے کے لئے کھڑے ہیں ،وہ اس وقت صدر پاکستان تھے۔ نواب آف کالا باغ ملک محمد امیر خاں(جو کہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے موجودہ پاکستان) وہ اکثر سرکاری دورے ریل کے ذریعے کرتے تھے۔ آج اہم شخصیات کیا عام لوگ بھی ریل کے ذریعے سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔ قومی ائیر لائن کا حال آپ کے سامنے ہے۔ فلم انڈسٹری اپنی حرکات سے تباہ ہوگئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں لوگ بچے مجبوراً داخل کراتے ہیں جو ذرا مالی طور پر مضبوط ہیں وہ ا پنے بچوں کو سرکاری سکولوں کے قریب سے بھی نہیں گزرنے دیتے۔میو ہسپتال کا شمار قیام پاکستان سے قبل ایشیاءکے بہترین ہسپتالوں میں ہوتا تھا۔ اس وقت کے منصوبہ سازوں نے یہ نہیں سوچا کہ تین لاکھ 42 ہزار افراد پر مشتمل اس شہر کی آبادی بڑھنی ہے، یہاں پر کئی نئے ہسپتال جدید سہولیات سے مزین قائم کرنے ہوں گے اور انگریز بہادر کے قائم کردہ ہسپتالوں کو توسیع دینا ہوگی۔ میو ہسپتال اور لیڈی ایچی سن ہسپتال دونوں صرف ایک سڑک کی دوری پر آمنے سامنے ہیں۔ اس وقت اگر یہ علاقہ حکومت خرید لیتی اور دونوں ٹیچنگ ہسپتال جو کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج(اب یونیورسٹی) کے ساتھ منسلک ہیں ایک کمپری ہینسو کمپلیکس بنا کر دونوں ہسپتالوں کو ترقی دی جاتی تو آج یہ پاکستان کا بہترین سرکاری ہسپتال ہوتا اور اس کا اردگرد کا ماحول بھی خوبصورت ہوتا اور مریضوں کی ضروریات بھی احسن انداز میں پوری کررہا ہوتا۔ خیر ہم نے کبھی بھی وقت سے پہلے کچھ سوچا نہیں اس لئے گلہ کس بات کا۔ اب خوش قسمتی سے ملک کے معروف فزیشن پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کو کے ای ایم یو کا وائس چانسلر بنایا گیا ہے وہ اس میو ہسپتال کو ماضی کا بہترین ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور موجودہ ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر زاہد پرویز کی بھی یہ دلی خواہش ہے کہ میو ہسپتال کے گورا وارڈ کو دنیا کا بہترین ہسپتال بنادیا جائے اور اس کے لئے آج کل منصوبہ بندی جاری ہے۔
گورا وارڈ اے ای ایچ کو البرٹ وکٹر ہسپتال بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں نے برصغیر میں اپنی یورپین آبادی کے لئے میو ہسپتال کے اندر قائم کیا تھا اور یہاں پر مریض افغانستان اور دیگر ممالک سے بھی کبھی علاج کے لئے لائے جاتے تھے اور گورا وارڈ کا شمار بھی بہترین علاج گاہ میں ہوتا تھا۔ یہاں پر مریضوں اور ان کے لواحقین کو بہترین کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔خوش قسمتی سے پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود اور ڈاکٹر زاہد پرویز دونوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے تعلیم یافتہ ہیں۔ دونوں نے یہاں پر ہاﺅس جاب بھی کیا ہے۔ ایک اچھی ٹیم ہے، اس سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خاں اور پروفیسر ڈاکٹر ممتاز حسن نے بھی اس ادارے کے لئے قابل ذکر خدمات سرانجام دی ہیں اور ڈاکٹر ممتاز حسن نے اس کالج کو یونیورسٹی بنایا ۔ڈاکٹر فیصل مسعود کا یہ کہنا ہے کہ وہ گورا وارڈ کو اس معیار پر لے کر جائیں گے کہ پرائیویٹ مریض یہاں پر آکر علاج کرانے میں فخر محسوس کریں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں یہاں پر ملک کے نامور لوگ جن میں عدلیہ کے معزز اراکین، بیوروکریٹ، فوجی ،کئی معروف لوگ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج یہاں پر کرایا کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب آتش چنار میں گورا وارڈ کے معیار کا تذکرہ کیا ہے۔ ہمارا مشورہ کے ای ایم یو اور میو ہسپتال کی انتظامیہ کو ہے کہ وہ میو ہسپتال کے ارد گرد کا علاقہ خرید کر لیڈی ایچی سن ہسپتال کو بھی ایک کمپلیکس کی صورت میں بناڈالیں۔ میو ہسپتال کی انتظامیہ کو چاہئے کہ گورا وارڈ کی توسیع اور موجودہ وارڈ کو بہترین اور جدید سہولیات سے مزین کرنے کے لئے حکومت سے خصوصی گرانٹ حاصل کرے اور خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق جو صحت کے منصوبوں کے لئے دن رات کام کررہے ہیں گورا وارڈ کی ترقی کے لئے خصوصی فنڈز جاری کریں۔
ہمیں ڈاکٹر فیصل مسعود کی اس تجویز سے پورا پورا اتفاق ہے کہ یہاں پر امیر لوگوں کو داخل کریں اور ان سے چارج کریں ۔بات اصل یہ ہے کہ میو ہسپتال کا اعتماد امیر لوگوں اور ایلیٹ لوگوں میں پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گورا وارڈ کا ماحول وہاں کے آپریشن تھیٹرز اور دیگر سہولیات کو بین الاقوامی معیارپر لایا جائے لیکن خدا کے لئے یوکرائن ،چین اور رنگ برنگ کے میڈیکل کالجوں کے ڈاکٹروں سے اسے بچایا جائے کیونکہ اب گورا وارڈ کا مقابلہ شہر میں قائم ان بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوںسے ہے جن کے مالکان کی اکثریت سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے پروفیسرز کی ہے جن کی دلی خواہش ہے کہ سرکاری سیکٹر میں قائم ہسپتال تباہ ہوجائیں تاکہ ان کا کاروبار چل سکے اگر گورا وارڈ کامیاب ہوگیا اور یہاں پر پرائیویٹ مریضوں کی بھرمار ہوگئی تو یقینا سرکاری ہسپتالوں پر اعتماد لوگوں میں بڑھ جائے گا۔ ہماری دعا ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے۔ کاش کئی برس قبل پالیسی ساز یہ سوچتے کہ میو ہسپتال کے کئی شعبے دوسرے شہروں میں بھی قائم کئے جاتے۔
لاہور کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں ایک چوبیس سالہ نوجوان خاتون کا سی سیکشن کے ذریعے بیٹی کی ڈلیوری ہوئی اور آپریشن تھیٹر سے اس خاتون کو انفیکشن لگ گئی اور صرف دو ہفتوں کے دوران وہ بے چاری مرگئی۔ اس کو اپنی پھول سی بچی کو آنکھ بھر کر دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ آج ہمارے ہسپتالوں میں انفیکشن کے ذریعے کئی مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں انفکیشن کو کنٹرول کرنے کے انتظامات اور چیک کا نظام اتنا تسلی بخش نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سرکاری اور پرائیویٹ دونوں ہسپتالوں میں مریضوں کا دباﺅ بہت زیادہ ہے اور ڈاکٹروں کی توجہ اور ہسپتال کے دیگر عملے کی توجہ کسی طور پر ان معاملات پر اتنی زیادہ نہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کو کوالٹی چیک سے زیادہ پیسے کمانے سے دلچسپی ہوتی ہے اور پھر سرکاری سطح پر کوئی فعال باڈی نہیں جو پرائیویٹ ہسپتالوں کو چیک کرسکے ۔
لو جی شاہی نجومی نے پھر ایک بار نئی پیشگوئی کردی ہے کہ دھماکے ہوتے رہے تو انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ شاہی نجومی نے چند روز قبل کہا تھا کہ دھماکے بہت ہوں گے، دھماکے شروع ہوگئے پھر شاہی بخومی نے کہا تھا کہ اب اہل تشیع کی باری ہے ۔اس سے اگلے روز ڈاکٹر علی حیدر اور ان کا بیٹا قتل ہوگیا۔ شاہی نجومی ویسے تو دھماکوں، خودکش حملوں ،کراچی اور کوئٹہ کے حالات کو درست نہیں کرسکتے البتہ ان کی پیشگوئی کا کام بڑا صحیح ہے اور پارلیمنٹ بھی انہیں یہ خطاب دے چکی ہے چنانچہ وزارت کا کاروبار ٹھپ ہونے کے بعد ان کا یہ کاروبار خوب چمکے گا۔
سندھ کے صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ شہباز شریف انہیں دے دیا جائے بہت درست اور صحیح مطالبہ ہے ۔کم از کم کراچی کی سڑکیں ،پل اور دیگر ترقیاتی کام تو ہوسکیں گے حالانکہ صدر مملکت اور راجہ جی کو باقی تینوں صوبوں کے وزراءاعلیٰ سے پوچھنا چاہئے کہ آخر ان کے ہاں ترقی کا عمل کیوں سست رہا جبکہ اختیارات فنڈز اور انداز حکمرانی چاروں صوبوں میں ایک جیسے ہیں۔شہر کے نیک لوگ جن کی دعاﺅں میں رب تعالیٰ نے اثر رکھا ہوا ہے وہ صرف حکمرانوں اور سیاست دانوں کے لئے رات دن کیوں دعائیں کرتے ہیں اور یہ رب کے نیک لوگ صرف امیر کبیر ،بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کو رات گئے بہت زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن غریب بے کس لاچار اور بے سہارا لوگوں کے لئے صرف ایک منٹ کا وقت رکھا جاتا ہے، ہماری تو رب کے ان نیک لوگوں سے درخواست ہے کہ رب نے انہیں دنیاوی چیزوں سے بالا تر رکھا ہوا ہے پھر انہیں کسی حاکم وقت اور کسی بڑے کی پروا کیوں ہے؟ ان کے لئے کچھ کریں جو بے چارے بے بس ہیں ان حکمرانوں کی وجہ سے۔
تازہ ترین