• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے پاکستان کی سیاست تباہ ہوئی اور اب معیشت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے یا پاکستان کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے۔ کیا کوئی سوچ رہا ہے کہ پاکستان میں کہیں ایسے حالات تو پیدا نہیں ہو گئے یا کر دیے گئے جو موجودہ صدی کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بہت سے مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک میں پیدا ہو گئے تھے یا کر دیے گئے تھے اور ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں بحیثیت قوم کیا کرنا چاہئے تاکہ تباہ ہونے والے بعض عرب ممالک کے انجام سے دوچار نہ ہوں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاست گندی ہو گئی ہے اور عام لوگوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی ساکھ بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بیرونی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی اشرفیہ کا بھی یہ ایجنڈا رہا ہے کہ سیاست پنپ نہ سکے اور سیاسی جماعتیں مضبوط نہ ہو سکیں۔ سیاست دانوں پر کرپشن، ملک دشمنی اور غداری کے الزامات لگا کر انہیں سیاست سے دور رکھنے کی کوششیں جاری رہیں مگر گزشتہ تین عشروں کے دوران ہمارے سیاست دانوں نے سیاست کو دولت بنانے کا جب سے ذریعہ بنایا، تب سے سیاستدانوں کے خلاف فضا بنانے کے حالات زیادہ سازگار ہوتے گئے۔سیاست دانوں کی کردار کشی پہلے آمرانہ حکومتوں میں شامل وہ لوگ کرتے تھے، جو غیر سیاسی بھی ہوتے تھے اور ’’سیاسی‘‘ بھی۔ کردار کشی کی اس مہم میں ہمارے میڈیا کا بھی بڑا حصہ ہے اور ہمارے بعض کالم نگار اور تجزیہ کار صرف یہی کام کرتے تھے اور وہ ہر حوالے سے بڑے صحافی قرار دیے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے اور ان کے احتساب کے لیے عام انتخابات میں مینڈیٹ ملا اور اس مینڈیٹ کی بنیاد پر وہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت قرار پائی۔ تحریک انصاف نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ سیاست کو کرپٹ اور ملک دشمن لوگوں سے پاک کرے گی اور ملک میں کرپشن کا خاتمہ کرکے اس معاشی بحران سے بھی ملک کو نکال لے گی، جو سیاستدانوں کی کرپشن کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ہم اس فتوے بازی میں نہیں پڑتے کہ پاکستان میں سیاست کو تباہ کرنے کا حقیقی ذمہ دار کون ہے لیکن اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے اور آج بھی ہمارے وزیراعظم کا بیانیہ اس امر پر دلالت کرتا ہے۔اس صورتحال میں ہم اس حقیقت کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط سیاسی جماعت مسلم لیگ نے عوام کی حمایت سے حاصل کیا۔ مضبوط سیاسی جماعتیں ہی ملک کی زیادہ بہتر طریقے سے حفاظت کر سکتی ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی قوم کے خلاف فوجی محاذ آرائی یا روایتی جنگوں کے ذریعہ کارروائیاں کم ہوتی ہیں اور ’’ہائبرڈ وار‘‘ کے طریقوں سے قوموں میں سیاسی ہیجان اور انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی ہیجان کا شکار ہے۔ ’’ہائبرڈ وار‘‘ میں سیاسی قوتیں زیادہ لڑائی کر سکتی ہیں، جو اس وقت سب سے زیادہ کمزور ہیں۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک طرف دھکیلنے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے، کیا وہ تحریک انصاف پُر کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ تحریک انصاف میں بھی زیادہ تر وہی لوگ ہیں، جو پہلے دوسری سیاسی جماعتوں میں تھے اور ان کے اثاثے بھی ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں بلکہ مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف سیاسی خلا تو کیا پُر کرے گی، آئندہ عام انتخابات تک اسے بطور ایک سیاسی جماعت برقرار رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔ سیاست کی تطہیر تو نہیں ہوئی، البتہ معیشت بھی قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست بطور ادارہ بہت کمزور ہوئی ہے اور سیاست دانوں پر نہ صرف لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوا بلکہ ان سے امید بھی دم توڑ رہی ہے۔ معیشت کی ماہرانہ موشگافیوں اور اعداد و شمار کی جادوگری کے باوجود ملک کی اکثریتی آبادی پر زندگی لمحہ بہ لمحہ تنگ ہو رہی ہے۔ مہنگائی پہلی حکومتوں میں بھی ہوتی تھی لیکن معاشی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں، جن کی وجہ سے لوگوں کو روزگار بھی مل جاتا تھا لیکن اب مہنگائی کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں ختم ہو رہی ہیں اور مواقع موجود نہیں ہیں۔ تحریک انصاف اور حکمرانوں کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حکومت ملنے کے باوجود فیصلے کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ کچھ ملکی اور غیر ملکی طاقتیں یہ نظام چلاتی ہیں، جن کے خلاف دنیا میں سیاسی قوتیں مزاحمت کرتی ہیں، جو اس وقت کمزور ہو چکی ہیں اور اپنی بقا کی کوششوں کے دائرے میں محدود ہو چکی ہیں۔ اب اگر مزاحمت یا انتشار کی شکل میں جو کچھ بھی ہوگا، وہ ان قوتوں کی مرضی کے مطابق ہوگا، جن کے فیصلوں کو تحریک انصاف کی حکومت عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ اب تو یہ اندازہ کر لینا چاہئے۔ ان حالات سے نبردآزما ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ غیر مرئی بیرونی اور ملکی طاقتوں کے ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپنا ایک ایجنڈا بنائیں اور قومی اتفاق رائے سے آگے بڑھیں۔ تصادم اور محاذ آرائی کی سیاست کا راستہ جو بھی اختیار کرے گا، وہی تمام تر صورتحال کا ذمہ دار ہوگا۔ خدا کرے کہ کسی کو ان حالات کا ادراک ہو۔

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب!

قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

تازہ ترین