• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کیا تھا، کیا ہو گیا، تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کو اس طرح لوٹا اور برباد کیا گیا اس کا اندازہ گزشتہ دنوں اس وقت ہوا جب چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں عروس البلاد کراچی کے بڑے مسائل کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کی اور بعض مقدمات میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عملدرآمد کی رپورٹس طلب کیں۔

ان مقدمات کی سماعت کے دوران خوفناک حقائق سامنے آئے۔ کراچی کی زمینوں پر جس قدر ناجائز قبضے کیے گئے، اس قدر قبضے دنیا کے کسی شہر میں نہیں ہوئے۔

تاریخ انسانی میں فاتحین اور بیرونی قابضین نے بھی شاید ایسا نہیں کیا ہوگا، جو کراچی کے ساتھ ہوا۔

زیادہ تر قبضے سرکاری زمینوں، پارکس، رفاہی پلاٹس، سڑکوں کی گرین بیلٹس، چوراہوں کے ٹرننگ پوائنٹس، ندیوں، نالوں کے کناروں، کھیل کے میدانوں سمیت ہر اس جگہ پر ہوئے جو جگہ خالی نظر آئی۔ یہ قبضے زیادہ تر اس دور میں ہوئے جب کراچی شہر دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں تھا۔

اس دوران ریاست اور حکومت کی کوئی عملداری نہ تھی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بےبس تھے اور کراچی کی حد تک عدالتیں بھی اس طرح فعال نہ تھیں، جس طرح ہونا چاہئے تھیں۔

دہشت گردی اور بدامنی کے دور میں چونکہ شہر لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا تھا، اسلئے ہر لسانی اور نسلی گروہ نے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں دھڑا دھڑ قبضے کیے۔ جو نسلی اور لسانی گروہ جس ادارے یا حکومت میں مضبوط تھا، اس نے ان قبضوں کی حوصلہ افزائی کی۔

وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتیں اپنے سیاسی اور لسانی مفادات کے پیش نظر نہ صرف خاموش رہیں بلکہ ان قبضوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھی جس کا فائدہ طاقتور سیاسی حلقوں، بیورو کریسی اور لینڈ مافیا کو ہوا۔ سڑکوں کے درمیان آئی لینڈرز، کھلی جگہوں، ریلوے ٹریکس اور ہر اس جگہ پر تجاوزات قائم کر لی گئیں جو خالی نظر آئی۔

اس وقت کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر تجاوزات سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ شہر میں ٹریفک کے مسائل گمبھیر ہو چکے ہیں۔ سرکلر ریلوے کی بحالی اس شہر کی ایسی ضرورت ہے جو ٹریفک جام کے عذاب سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ اب کراچی سرکلر ریلوے کو پاک چین اقتصادی راہدری (سی پیک) کا حصہ بنایا گیا ہے، اسلئے اسکی بحالی کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر جو بھی عمارت آئے، گرا دی جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹس ہوئی ہیں۔

ان کی بھی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دستورِ پاکستان کے مطابق زمین سندھ حکومت کی ہے، سندھ حکومت نے مختلف مقاصد کیلئے زمین وفاقی حکومت اور دیگر اداروں کو دی، جن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان ریلوے اور دیگر ادارے شامل ہیں۔

سندھ حکومت نے کراچی میں بلدیہ عظیٰ کراچی، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر مقامی اداروں کو بھی زمینیں دیں۔ ان تمام اداروں نے اپنے آپ کو لینڈ ایجنسی بنا لیا ہے اور خود زمینیں الاٹ کر رہے ہیں۔ دستور کے مطابق زمینیں الاٹ کرنیوالا حقیقی محکمہ بورڈ آف ریونیو سندھ بھی زمینیں الاٹ کر رہا ہے۔

ان تمام اداروں میں زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹس جاری ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں تعمیرات کو ضابطے میں لانے والے کئی ادارے ہیں۔ ایک ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ہے۔ یہ ادارہ کراچی کی ماسٹر پلاننگ اور اس پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہے۔

اس ادارے کی اجازت سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے علاقوں میں عمارتیں تعمیر ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو پاکستان میں حکمرانوں کو سب سے زیادہ پیسہ کما کے دے سکتا ہے۔ پورے پاکستان پر حکمرانی کے مقابلے میں صرف ایس بی سی اے پر کنٹرول کو ہر حکمراں ترجیح دیتا ہے۔ اس ادارے کی اجازت سے کراچی کا اصل چہرہ بگڑا۔

عرض بس اتنا کرنا ہے کہ کراچی کو برباد کرنے کی ذمہ داری ان قوتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے کراچی کو سیاسی اور جمہوری عمل کیلئے خطرے کی گھنٹی بنانے کی کوشش کی جبکہ سیاسی قوتوں نے بگاڑ کو درست کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔

میں کراچی کا بیٹا ہوں اور کراچی کو اپنی روح میں سمجھتا ہوں، کراچی کو نہ سنبھالا گیا تو پاکستان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی کے مسائل کی سنگینی کا ادراک ضرور کیا ہے لیکن اس ادراک میں سیاسی وژن کی کمی کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔

سارے کراچی کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں سیاسی حساسیت کے ساتھ ساتھ انسانی پہلو بھی ہیں۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کا یہ حکم بجا ہے کہ کراچی کیلئے ایک نیا ماسٹر پلان بننا چاہئے اور یہ پلان کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بنا سکتے ہیں۔

تباہ حال کراچی کو اگر مزید تباہی سے نہ بچایا گیا تو پاکستان مزید تباہی کے نتائج کا متحمل نہیں ہو سکے گا کیونکہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔

تازہ ترین