• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساﺅتھ لندن میں ہماری ہمسائیگی میں ایک نوجوان برٹش جوڑا رہائش پذیر تھا۔ لڑکی کا نام نینسی اور سیلز گرل کا کام کرتی تھی اور اس کا پارٹنر کارل فیکٹری ورکر تھا۔ دونوں کے دو گول مٹول سے بچے بھی تھے۔ دونوں لڑکے، ایک سال بھر کا جبکہ دوسرا کوئی تین برس کا ہو گا۔ اس کپل کے ساتھ ہماری دوستی میں ان بچوں کا بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ ہم ٹھہرے بچوں کے شیدائی۔ہماری دانست میں یہ ایک خوش و خرم آئیڈیل فیملی تھی، میاں بیوی اور دو صحت مند بچے۔ لیکن اس دن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب کارل اپنی شادی کا دعوت نامہ لیکر آیا۔ کہنے لگا، ہم عرصے سے اکٹھے رہ رہے ہیں، دو بچے بھی ہو گئے۔ اب ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے گو یہ بات ہمارے لئے حیران کن ہو لیکن مغربی سوسائٹی میں کوئی اچھنبا نہیں، ایک معمول کی کارروائی ہے۔ نینسی اور کارل نے اخراجات کا حساب لگایا تو پتہ چلا کہ چرچ کی تقریبات سمیت پانچ ہزار پاﺅنڈ تو چاہئے ہوتے ہیں۔ نینسی چھ پاﺅنڈ گھنٹہ کے حساب سے ایک اسٹور پرکام کرتی تھی اور ہفتہ بھر میں کوئی دو سو پاﺅنڈ کما لیتی تھی، فیکٹری ورکر کارل کی تنخواہ البتہ 300 پاﺅنڈ فی ہفتہ تھی، یوں دولہا نے اپنے حصے کے ڈھائی ہزار پونڈ پہلے جمع کر لئے۔ نینسی کی کمائی بھی کم اور بچت بھی کم اور سب سے بڑا مسئلہ شادی کے لباس کی خریداری کا تھا۔ فی الحقیقت وہ ایک خاص قسم کے ویڈنگ ڈریس کو دل دے بیٹھی تھی جو اس نے ایک سہیلی کی شادی پر دیکھا تھا۔ اس کے قریبی حلقوں میں تو یہ چہ مگوئیاں بھی ہو رہی تھیں کہ نینسی نے محض وہ مخصوص لبادہ ¿ عروسی پہننے کے لئے شادی کا ڈھونگ رچایا ہے ورنہ اس جھنجھٹ کی کیا ضرورت تھی۔ اچھا بھلا گزارہ تو ہو رہا تھا۔ 1500 پونڈ کا ویڈنگ ڈریس نینسی کی بچت کا مذاق اڑا رہا تھا۔ دن جوں جوں قریب آرہے تھے، اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ خصوصی ڈریس کے بغیر شادی بے معنی تھی، جوبدستور اس کی پہنچ سے باہر تھا۔بی بی ایک دن ایسے ہی انٹرنیٹ سے دل بہلا رہی تھی، کہ ایک سائٹ پر ایسے ہی ڈریس کی تصویردیکھی جس کی تصریحات برٹش پراڈکٹ کے عین مطابق تھیں۔ شنگھائی کی کوئی فرم مذکورہ ڈریسز نیلام کرنے جارہی تھی، نینسی نے محض مذاق میں اڑھائی پونڈ کی آفر بھجوا دی ہفتہ بعد اسے فرم کی طرف سے ای میل موصول ہوئی کہ اس کی بڈ قبول کر لی گئی ہے اور ساتھ ہی نینسی سے اس کی جسمانی پیمائش کی تفصیلات مانگی گئی تھیں، جواس نے بے دلی سے بھجوا دیں۔ کہ کوئی اس کے ساتھ دل لگی کر رہا ہے، لیکن اس سہ پہر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب کوریئر سروس کے نمائندے نے اس کے اپارٹمنٹ کی گھنٹی بجائی جو مذکورہ فرم کی جانب سے ایک پارسل لایا تھا جسے نینسی نے بے یقینی کے عالم میں کھولا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے اندر اس کے سائز کا نہایت نفیس، صاف ستھرا، پریس شدہ بعینہ وہ ویڈنگ ڈریس موجود تھا جو برطانوی اسٹورز پر 1500 پونڈ میں بک رہا تھا۔ نینسی نے بچوں کی طرح فوراً ٹرائی لی محو حیرت ہرکارہ کچھ سمجھ نہ پا رہا تھا جونہی نینسی نارمل ہوئی تو اس نے ساڑھے سولہ پونڈ کے ڈاک خرچہ کا مطالبہ کیا، جو بی بی نے بخوشی ادا کردیا۔ شادی بخیر و عافیت بلکہ دھوم دھام سے ہوگئی، نینسی نے چینی فرم کو شکریے کا ای میل بھجوایا اور اسکے ساتھ کاروبار کرنے کی خواہش کا اظہاربھی کیا، تفصیلات طے ہونے کے بعدنینسی اب لندن کے ایک اسٹور میں شنگھائی سے درآمد کردہ ویڈنگ ڈریسز بیچتی ہے جو مقامی پراڈکٹ سے تین گنا سستے ہیں۔ اور ہاٹ کیک سے بھی زیادہ پاپولر ہیں۔ مہینوں کی ایڈوانس بکنگ ہوتی ہے برطانوی دوشیزائیں نینسی سے پوچھ کر شادی کی تاریخ طے کر رہی ہیں۔ یوں دو سو پونڈ فی ہفتہ کمانے والی سیلز گرل برطانیہ کی اہم امپورٹر کی حیثیت سے ابھر رہی ہے اور روپیہ پیسہ اب اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔انہی دنوں ایک پاکستانی شادی کا بھی اخباروں میں خوب چرچا تھا۔ ایک نو دولتیے کی بیٹی کی شادی طے پائی، تو فیصلہ ہوا کہ اسے ہرلحاظ سے یادگار بنانا ہے۔ وہ کچھ کرنا ہے، جو پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ باقی تفصیلات کا تو ہم ذکر نہیں کریں گے کہ ہمار موضوع نہیں۔ البتہ عروسی لباس کی بات چلی تو سب سے پہلے مقامی بازاروں میں تلاش ہوئی، مگر وہاں تو ہر چیز ”ربش“ (Rubbish) تھی پانچ لاکھ سے اوپر کا کوئی مال ہی نہیں تھا۔ کسی نے بتایا کہ ممبئی اور دہلی کی دو فرمیں اس فن میں یکتا ہیں اور عرب کے شیوخ بھی برائیڈل ڈریس کیلئے انہی سے رجوع کرتے ہیں چنانچہ فیصلہ ہوا کہ دلہن، اس کی ماں، بہن اور بھائی پر مشتمل چار رکنی وفد فی الفور ہندوستان جائے۔ دہلی میں بھی بس چلاﺅ مال تھا البتہ ممبئی میں کچھ ڈریسز دل کو لگے، مگر بقول شخصے دل میں کھب نہیں رہے تھے۔ دکاندار نے انہیں تذبذب میں دیکھ کر کہا میں آپ کا مسئلہ سمجھتا ہوں جس قسم کے برائیڈل ڈریس کی تلاش میں آپ ہیں، وہ آپ کو دبئی میں فلاں شاپ سے ملے گا۔ ہم نے ہی اسپیشل آرڈر پر تیار کر کے پچھلے ہفتے بھیجا تھا۔ مگر شادی ملتوی ہونے کی وجہ سے بکا نہیں۔ خالص سونے اور چاندی کے تاروں سے بنا ہے اور سچے موتیوں کا کام بھی ہے۔ مذکورہ وفد وہیں سے دبئی فلائی کر گیا، دکان پر پہنچے تو خوش قسمتی سے جوڑا موجود تھا اور واقعی شاندار تھا جو پاکستانی شائقین نے صرف پانچ ملین میں خریدا تھا ساری شادی کوئی 70 ملین میں پڑی تھی، جو بدقسمتی سے ستر دن بھی نہ چل پائی تھی۔کئی برس پیشتر راقم کو آسٹریلیا کے کیپٹل سٹی کینبرا میں ایک بین الاقوامی کلچر فورم میں شرکت کا موقع ملا تھا پاکستانی شادیوں کی رسومات اور اخراجات کی تفصیل نے شرکاءکو حیران و پریشان کردیا تھا۔ منگنی، مایوں، مہندی، نکاح اور ولیمے کے پہناووں اور کھانوں کی تفصیلات ان کے لئے مزید تعجب خیز تھی اور یہ انکشاف کہ عام سی شادی پر ایک ملین روپے اٹھ جاتے ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ دس ، بیس ملین کا خرچہ بھی ہو سکتا ہے تو گویا اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا، اور ان کی آنکھیں حیرت سے مزید پھیل گئیں۔ ایک لڑکی حسرت سے بولی سر یہ تو ایفورڈ کرنے کی بات ہے۔ مسٹر سید! آپ آئل رچ کنٹری ہیں، یہ عیاشی کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو چرچ کے 1200 ڈالر بھی زیادہ لگتے ہیں۔ اب حیرانی کی میری باری تھی، پاکستان اور آئل رچ کنٹری؟ نہیں نہیں ہمارے ہاں آئل نہیں ہوتا۔ ہم تو تھرڈ ورلڈ کی ایک غریب قوم ہیں جہاں فی کس سالانہ آمدن 600 ڈالر سے بھی کم ہے۔ میرے منہ سے اضطراری کیفیت میں نکلا۔”تو پھر آپ اس قدر فضول خرچی کیسے کر لیتے ہیں؟“ بیک زبان ہو کر پوچھے جانے والے بیبیوں کے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
تازہ ترین