• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن قبل چوہدری رحمت علی کی برسی آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ کئی برس قبل میں کیمبرج میں تھا تو ایک روز اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کے لئے حاضر ہوا۔ اُن کا وہ گھر بھی دیکھا جہاں وہ طویل عرصے تک مقیم رہے۔ کیمبرج کے گلی کوچوں اور ہائی اسٹریٹ میں وہ لیٹر بکس ڈھونڈتا رہا جو چوہدری رحمت علی کے پاکستان بارے لکھے مواد اور پمفلٹوں سے بھر جاتے تھے۔ ہر اعلیٰ مقصد یا عظیم مشن جذبہ چاہتا ہے اور اگر مشن رگِ جاں سے قریب ہو تو یہ جذبہ دیوانگی بن جاتا ہے۔ آج ایک آزاد ملک میں آزاد زندگی گزارنے والے 1930ءکی دہائی اور انگریز کی غلامی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس خوف، جبر اور غلامی کے دور میں ساری ساری رات دسمبر کی شدید سردی میں کرسی پر بیٹھ کر لکھنا، ٹائپ کرنا اور برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کے نام لفافے بنانا اور پھر آسمان سے برستی برف سے بےپروا ہو کر ان لفافوں کو دور جا کر لیٹر بکسوں میں ٹھونسنا اس دیوانگی کی ایک معمولی سی علامت تھی۔ قدرت کے اصول بھی نرالے ہیں۔ بعض اوقات قدرت کو اس دیوانگی کی کوئی ادا پسند ا ٓجائے تو انسان تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ قدرت نے اس حوالے سے ایک ہی شرط رکھی ہے اور وہ شرط ہے خلوص....سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے اور وقت کے دریا میں بہہ جاتا ہے لیکن ضائع نہیں ہوتا تو خلوص کیونکہ مالکِ حقیقی نیتوں کا ثمر ضرور عطا کرتے ہیں۔

میں چوہدری رحمت علی کی قبر کے سرہانے کھڑا قرآنی آیات پڑھ رہا تھا تو مجھے اُن کی انگریز سیکرٹری کا بیان یاد آ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اُن کی انگریز سیکرٹری کو نہ پاکستان سے کوئی غرض تھی نہ الفاظ کو توڑنے موڑنے کی ضرورت تھی اور پھر یہ بیان بھی چوہدری صاحب کے انتقال کے کئی برس بعد کا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحب جب ہندوستان کی تقسیم اور آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے عشق میں مبتلا ہوئے تو وہ دن رات اس کے نام پر غور کرنے لگے۔ بقول چوہدری رحمت علی کہ اُنہوں نے اس مقصد کے لئے مراقبے کئے، نمازوں کے بعد نوافل پڑھ کر اللہ سبحانہ تعالیٰ سے رہنمائی مانگتے رہے اور پھر ایک دن اُن کے ذہن پر لفظ پاکستان (Pakistan)اُبھرا جسے انہوں نے حکمتِ الٰہی سمجھ کر قبول کر لیا۔ اُن کی سیکرٹری کے بقول اُس وقت چوہدری صاحب ڈبل ڈیکر بس کی اوپر والی منزل پر محوِ سفر تھے اور گہری سوچ میں گم تھے۔ شاید یہ واقعہ 1930-31کا ہے کیونکہ 1931میں علامہ اقبالؒ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن میں موجود تھے جہاں چوہدری صاحب اور خواجہ عبدالرحیم اُن سے ملے اور پاکستان اسکیم سے اُن کا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رُود میںلکھا ہے کہ اقبال نے کہا لفظ پاکستان کے حروف علیحدہ علیحدہ لکھ کر میرے بستر کے اردگرد رکھ جائیں تاکہ اس پر غور کر سکوں۔ (صفحہ 514) میں نے لندن میں دیئے گئے اس ’’ڈنر‘‘ کی تصویر بھی دیکھی ہے جو چوہدری رحمت علی نے گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین کے اعزاز میں دیا اور جس میں قائداعظم اور علامہ اقبال بھی تشریف فرما ہیں۔ تمام تر مساعی کے باوجود مسلمان لیڈر اُس وقت تک، نہ پاکستان کے لفظ کو قبول کرنے کیلئے تیار تھے نہ علیحدہ آزاد مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کرنے کیلئے۔ سر آغا خان نے سلیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں اس اسکیم کی خوب مخالفت کی تھی اور مسلم لیگی لیڈران بھی اِسے طالبعلموں کی اسکیم سے زیادہ وقعت اور اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔

دو تین برس تک لیڈران سے ملاقاتیں کرنے کے بعد چوہدری صاحب نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی اور بالآخر 28؍جنوری 1933ء کو 3ہمبر سٹون روڈ کیمبرج سے ’’نائو آر نیور‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا جس میں ٹھوس دلائل کیساتھ پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’’ہمیں زندہ رہنا ہے یا ہمیشہ کے لئے فنا ہو جانا ہے‘‘ کے الفاظ سے شروع ہونے والا کتابچہ پاکستان کے حصول کو ہندوستانی مسلمانوں کیلئے زندگی و موت کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ بعینہٖ بات ہمیں قائداعظم کی اَن گنت تقاریر میں ملتی ہے جو انہوں نے قرار دادِ پاکستان کے بعد مختلف مقامات پر کیں۔ لطف کی بات ہے کہ چوہدری صاحب کو حد درجہ کوشش کے باوجود پاکستان کے حصول کیلئے لکھے گئے اس کتابچے اور بنائی گئی پاکستان نیشنل موومنٹ کی حمایت میں صرف تین حضرات مل سکے جنہوں نے دستخط کئے۔ کتابچہ میرے سامنے رکھا ہے۔ اوپر چوہدری رحمت علی کا نام ہے اور نیچے محمد اسلم خٹک، عنایت اللہ خان چارسدہ اور صاحبزادہ شیخ محمد صادق کے اسمائے گرامی ثبت ہیں۔ محترم اسلم خٹک اور محترم عنایت اللہ خان کا تعلق سابق صوبہ سرحد سے تھا جبکہ شیخ محمد صادق پنجاب کے رہائشی تھے۔ اسمِ پاکستان کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے۔ بلاشبہ ’’لفظ پاکستان‘‘ ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی نے پہلی بار استعمال کیا جب اُنہوں نے 1928ءمیں ڈپٹی کمشنر ہزارہ کو ایک ہفت روزہ کے ڈیکلریشن کیلئے درخواست دی جس کا نام پاکستان تھا مجھے علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی کے فرزند نے اس حوالے سے کچھ مواد بھیجا تھا لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں یہ نام ایک ہفت روزہ کیلئے تھا جبکہ چوہدری رحمت علی اُس پاکستان کا تصور پیش کر رہے تھے جس میں ہم آج کل آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ ’’نائو آر نیور‘‘ کی اسکیم میں بھی بنگال شامل نہیں تھا اس حوالے سے اسکیم بعد ازاں بنی۔ لفظ پاکستان کے حوالے سے کئی اور دعوے دار بھی ہیں لیکن میرا فقط ایک ہی سوال ہے کہ اس نام سے سب سے پہلے تحریری اسکیم کس نے پیش کی؟ کس نے پمفلٹ لکھ کر اراکینِ برطانوی پارلیمنٹ کو بھجوائے؟ کون بھاگ دوڑ کرتا رہا اور کس نے مسلمان لیڈران کو اس پر قائل کرنے کیلئے کوششیں کیں؟ دعوے کرنے والے تو اس پمفلٹ پر دستخط کرنے کو بھی تیار نہیں تھے اور نہ ہی اُنکے پاس زبانی دعوئوں کے علاوہ کوئی ثبوت ہے۔ اگر اُنہوں نے برطانوی آقائوں کے خوف یا کسی اور مصلحت کے تحت اپنے آپ کو اس نام اور تحریک سے دور رکھا تو اب دعوے کرنے کا کیا فائدہ؟ جو خود بڑھ کر اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کی ہے۔

تازہ ترین