• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی محکمے ہوں، سرکاری افسران یا کوئی بھی حکومت سے متعلق معاملہ، ریلیف لفظ کا استعمال ضرور سننے کو ملتا ہے۔ اگر کسی بھی سرکاری کام میں کسی کا کوئی رکا ہوا کام یا کہیں پر کوئی پھنسا ہوا معاملہ حل کروایا جائے تو کہا جاتا ہے اُس کو ریلیف دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ اکثر اوقات یہ کام نہ صرف جائز ہوتا ہےبلکہ کام کا ہونا اُس شہری کا حق ہوتا ہے لیکن ہمارے نظام کا خاکہ ہی کچھ ایسا ہے کہ جائز کام کے لیے بھی رشوت یا سفارش چاہئے ہوتی ہے اور جائز کام روکنے والا افسر یا سرکاری اہلکار کسی کا بھی جائز کام کرتے ہوئے اپنی کرم نوازی سے اُس کو ’ریلیف‘ دیتا ہے، اِس طرح اُس شہری پر بہت بڑا احسان کیا جاتا ہے۔ سرکاری اہلکار اپنی ڈیوٹی پوری کرتے اور رزق کو حلال بناتے ہوئے پبلک سروس کی اسپرٹ میں شہری کو سہولت نہیں بلکہ ریلیف دیتا ہے۔

ریلیف کا تصور ہماری سرکاری مشینری میں اس قدر دھنس چکا ہے کہ جب حکومت نے لوگوں کے وہ مسائل، جن کا اکثر اوقات سبب سرکاری اہلکار ہی ہوتے ہیں، حل کرنے کے لیے پی ایم پورٹل بنایا جہاں شہری کرپشن اور نااہلی کے خلاف اپنی شکایات درج کرا سکتے ہیں تووہاں بھی جب کسی شہری کا کام کیا جاتا ہے تو لکھا جاتا ہے ’’ریلیف گرانٹڈ‘‘۔ یعنی شہری پر احسان مکمل ہوا! اسی طرح ’’ڈُو دی نیڈ فل‘‘ (Do the needful) وغیرہ جیسے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

اب کہنے کو الفاظ کے چنائو سے کیا فرق پڑتا ہے اور اگر پڑتا بھی ہے تو کتنا؟ ایک سادہ مثال بادشاہ اور صدر کی لیتے ہیں۔ کہنے کو تو دونوں ہیڈ آف اسٹیٹ (ریاست کے سربراہ) ہوتے ہیں لیکن بادشاہ کے برسرِ اقتدار آنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہم بادشاہ کو ایک خاص رتبہ دیتے ہیں۔ صدر جمہوری ہوتا ہے، لوگ خود اسے منتخب کرتے ہیں اور اسی طرح صدر ہمارے نزدیک بادشاہ کی نسبت ایک عام انسان ہوتا ہے جو چند سال کے لیے عہدے پر آتا ہے۔ بادشاہ کے لیے بادشاہ سلامت جیسے آداب استعمال ہوتے ہیں ،صدر کے لیے مختلف آداب۔ ہماری سوچ اور ہمارے رویے اس حوالے سے کہ کیا لفظ کس کے لیے استعمال ہوتا ہے، بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ لفظ سے زیادہ اُس لفظ سے منسلک پس منظر اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کا پس منظر کچھ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری نظام کی بنیاد انگریز دور میں رکھی گئی اور اس نظام کا مقصد نہ تو لوگوں کو سہولتیں دینا تھا اور نہ ہی پبلک سروس کا عنصر بلکہ اِس کا مقصد انگریزوں کی حکومت کی گرفت برقرار اور عوام کو دبا کر رکھنا تھا۔ اس لیے سرکاری عہدوں میں طاقت اور شاہی دبدبہ رکھے گئے تاکہ عوام ان کو ’سول سرونٹس‘ نہ سمجھیں۔ اسی پس منظر میں ہمارا سرکاری نظام چلتا رہا۔

ہمارے یہاں پر اسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں سٹی منیجر کا تصور ہے۔ یہاں پر ریلیف دیا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اسے سروس ڈیلیوری کہا جاتا ہے۔ یہاں پرعوام سرکاری بابوئوں کے ماتحت ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری ادارے بھی عوام کو کلائنٹس کہتے ہیں کیونکہ کسی بھی سرکاری محکمے کی تنخواہیں اور خرچہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی ادا کیا جا تا ہے۔ یہ اسپرٹ جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے، یہی ہمیں پاکستان میں بھی چاہیے۔ پبلک سرونٹس کو سائرن اور پروٹوکول کیوں ملنا چاہیے؟ کیوں عوام جن کی خدمت کے لیے وہ ہیں، کو ان کے لیے سڑکوں پر خوار کیا جاتا ہے؟ معیار صرف عوام کی خدمت ہونا چاہیے جس طرح دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔پروٹوکول دکھاوے سے زیادہ سیکورٹی کے لیے ہونا چاہئے۔

بیوروکریسی کی اصلاحات پر بہت بات ہوتی ہے اور میں اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں۔ مگر اِس بحث میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں کس کلچر اور کس پس منظر کو تقویت دیتے ہیں۔ کوئی بھی اصلاحات معاشرے اور حکومت‘ دونوں میں یہ تاثر دور کیے بغیر نہیں کامیاب ہو سکتیں کہ عوام کو سہولتیں مہیا کرنا، ان کی خدمت کرنا اور ان پر حکمران کے طرح مسلط ہونے کے بجائے ایک ایسا ماحول بنانا جہاں عوام جائز طریقے، عزت سے، کسی کا بھی احسان لیے بغیر اپنا کام کروا سکیں۔ انگریز کب کے چلے گئے، لیکن اب بھی ان کی چند اچھی لیکن زیادہ تر بری آلائشیںموجود ہیں جو ہمارے معاشرے اور ملک‘ دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین