• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی دنوں سے میری آنکھوں کی نمی مجھے بے چین کئے ہوئے ہے مجھے لگتا ہے میرا دل رو رہا ہے ۔میں اپنے روز مرہ کے فرائض اور کاموں کو دھیان سے انجام نہیں دے پارہا ۔عجیب سی بے چینی ہو چکی ہے ۔میرے سامنے بیٹھ کر کون کیاکہہ گیا ہے یا میں نے اپنے سٹاف کے کسی فرد کو کیوں بلایا تھا مجھے یا د نہیں رہتا ۔البتہ میرے ذہن میں بار بار اپنا بچپن آ جاتا ہے ۔اپنا اسکول جانے کا پہلا دن ۔۔۔
ہاں ، مجھے اپنے اسکول جانے کا پہلا دن آج بھی یاد ہے میری امی جان مجھے ناشتہ کرانے اور اسکول کے لیے تیار کرنے کے دوران بتا رہی تھیں کہ اسکول جانا کیوں ضروری ہوتا ہے ۔بڑاآدمی بننے کے لیے اسکول کتنا ضروری ہوتا ہے ۔اسکول میں مجھے نئے نئے دوست ملیں گے ۔اور میری امی مجھے مسلسل بتا رہی تھیں کہ ٹیچرز کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے انہیں سلام کرتے ہیں ۔بڑوں کا ادب کرتے ہیں ۔دوسروں کا خیال رکھتے ہیں ۔دوستوں کے ساتھ کس طرح ملنا ہے ۔ٹیچرز جو بھی پڑھائیں اسکو دھیان سے سننا ہے ۔کسی سے کوئی چیز نہ مانگنی ہے نہ لینی ہے ۔اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنا ہے ۔آج میرا اسکول جانے کا پہلا دن تھا ۔اور یہ باتیں اسکول جانے سے پہلے بھی میری امی جان کئی بار مجھے بتا چکی تھیں ۔اور بہت ساری باتیںسمجھا چکی تھیں ۔لیکن میرے دل اور ذہن میں کچھ اور ہی خیالات چل رہے تھے ۔کہ معلوم نہیں کیوں میری امی جان مجھے خود سے دور کرنے کے لیے اسکول بھیج رہی ہیں ؟ میں گھر میں بھی رہ کر پڑھ سکتا ہوں ۔اتنی دور صبح سویرے اسکول جانے کی کیا ضرورت ہے ۔معلوم نہیں میری ٹیچر کیسی ہونگی وہ مجھے ڈانٹیں گی تو نہیں ۔میں اسکول میں اپنی بہن اور اپنی امی ابوکے بغیر کیسے رہوں گا۔لیکن مجھے اپنے اسکول کا یونیفارم بہت اچھا لگ رہا تھا ۔مجھے اپنے نئے چمکتے ہوئے کالے شوز آج بھی یاد ہیں ۔مجھے اپنا نیا بیگ اور اس میں نئی کتابوں کی بہت خوشی تھی ۔جب سے میرا نیا بیگ اور کتابیں آئی تھیں میں کئی مرتبہ اس بیگ کو کھول کر اپنی کتابیں دیکھ چکا تھا ۔مجھے اپنے بیگ میں رنگ دار پنسلوں کا ڈبہ سب سے خوبصورت لگ رہا تھا ۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں پنسلوں کے اس ڈبے سے ایک ایک رنگ کی پنسل نکالوں اور انکے رنگوں سے اپنی ڈرائنگ بک رنگ دوں ۔لیکن پھر یہ خدشہ کہ کہیں میری پنسلیں خراب نہ ہو جائیں ۔انکے رنگ خراب نہ ہو جائیں ۔میری ڈرائنگ بک خراب نہ ہو جائے ۔میں ان پنسلوں کو دوبارہ سنبھال کر اپنے بیگ میں رکھ دیتا تھا ۔میرا خیال ہے کہ مجھے اپنے اسکول کے پہلے دن سب سے زیادہ اپنی نئی چیزوںکی خوشی ہو رہی تھی جو میری امی جان نے مجھے بڑی محبت سے لے کر دی تھیں۔ کراچی کے عباس ٹاﺅن میں ہونے والے دھماکے میں درجنوں مرد خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں ۔انکی املاک تباہ ہوئی ہیں نہ جانے کس انسان نے اپنے دل کو اتنا سخت بنا کر ان ہنستے بستے لوگوں کوتباہ کیا ہو گا۔کیابارود کی بو پھیلانے والے شخص کی کوئی ماں نہیں تھی اور اس نے اپنے بچے کو یہ نہیں بتایا تھا کہ دوسروں کا احترام کرتے ہیں دوسروں کا خیال رکھتے ہیں کس کو نقصان نہیں پہنچاتے۔مجھے اس سارے واقعہ میں اپنی ماں سمیت شہید ہونے والا معصوم بچہ حُر حیدر بہت تڑپا رہا ہے،جس کی چار ساڑھے چارسال عمر تھی وہ اپنی ماں کی انگلی پکڑ کر اپنے اسکول کے پہلے دن کے لیے اپنے شوز لینے جا رہا تھا ۔رنگوں کی پنسلیں خرید نے جا رہا تھا۔اسکے ننھے سے دل اور ننھے سے دماغ میں کیا کیا باتیں ، خوشیاں اور جذبات مچل رہے ہونگے ۔اسکی ننھی سی سوچ ، زندگی کے سمندر میں نہ جانے کیسے غوطہ زن ہو رہی ہو گی ۔لیکن مجھے یقین ہے وہ اپنے لیے نئے شوز خریدنے پر بہت خوش ہو گا۔اسکا دل چاہ رہا ہو گا کہ وہ اپنی رنگدار پنسلوں سے رنگ بکھیر کر اس شان کر یمی کے بنائے ہوئے رنگوں اور قدرت کے نظاروں کا اعتراف کرے گا وہ اپنی ماں کی ساری باتیں سنتا دوکان کی طرف جار ہا ہو گا ۔کبھی وہ اپنی ماں کی طرف دیکھ کر سوالات کرتا ہو گا اور کبھی ماں اپنے حر حیدر کے معصوم سوالوں پر اس کا منہ چومتی ہو گی ۔لیکن بارود کے تباہ کن دھماکے نے اس چاند سے بچے کی سماعتوں پر کیاقیامت گزاری ہو گی ۔اس ماں کا کلیجہ دھماکے سے نہیں بلکہ حر حیدر کے معصوم ہاتھوں سے اپنی انگلی چھوٹ جانے کی وجہ سے پھٹ گیا ہو گا ۔یا اللہ میں مزید نہیں سوچ سکتا ۔یا اللہ مجھے سکون دے دے میرے ملک کو اب زخمی ہونے سے بچالے اس ملک کی ساری ماﺅں کے کلیجوں کو ٹھنڈک عطا کر دے ۔یا اللہ میں خون آلود بکھرے اعضاءدیکھ دیکھ کر تنگ آچکا ہوں ۔یا اللہ میرے کراچی میں امن کر دے ۔میرے بلوچستان میں امن کر دے ۔میرے بہاروں کے خیبر پختونخواں میں سکون دے دے ۔میرے پنجاب اور میرے ملک کے کونے کونے میں امن کر دے اے اللہ میرے ملک کے معصوم بچوں کے معصوم ہاتھوں کو رنگدار پنسلوں سمیت محفوظ کردے ۔سب کی ماﺅں کو محفوظ کر دے جو اپنے بچوں کو بتائیں کہ دوسروں کا احترام کرتے ہیں ۔
تازہ ترین