• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ بادامی باغ قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے سو ہر سطح پر ناپسندیدگی کا اظہار قابل فہم، مگر نوحہ گری؟ ساٹھ پینسٹھ سال میں ہم نے جو بویا وہ کاٹنا پڑ رہا ہے تو رونا دھونا کس بات کا ؟ سیاسی و مذہبی قیادت کو اللہ توفیق دے تو اپنے گریبان میں جھانکے اور عدم برداشت، ہنگامہ آرائی، تنگ نظری، تفرقہ بازی اور بدنظمی کو قومی مزاج کا حصہ بنانے والے عناصر اور کرداروں کا تعین کرے ، خود ہی مجرم قرار پائے گی کہ سب اس کا اپنا کیا دھرا ہے ۔
مبینہ گستاخ رسول ساون نشہ کی حالت میں گرفتار ہوا اور اول خول بکتا رہا تو پولیس و انتظامیہ نے واقعہ کی پردہ پوشی کرکے افواہوں کو جنم کیوں دیا اور جوزف کالونی کو مکینوں سے خالی کرانے کے بعد بستی کے ارد گرد حفاظتی حصار قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسو نہ کی ؟ یہ سنجیدہ نوعیت کے سوال ہیں لیکن ہجوم کا ردعمل تو ہماری قومی روایت اور مزاج کے عین مطابق تھا ۔
بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ، مراعات میں اضافے، منشیات فروشی کے اڈے اور جعلی ادویہ ساز ادارے پر چھاپے کے وقت کیا ہمارے سیاسی کارکنوں اور ”باشعور“ محلہ داروں کا ردعمل اس سے مختلف ہوتا ہے؟ ڈاکٹر اور وکیل احتجاجی مظاہروں میں جلاﺅ گھیراﺅ ، توڑ پھوڑ اور پتھراﺅ کو روا رکھتے ہیں اور ہمارے قائدین کرام حوصلہ افزائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جوزف کالونی کے حملہ آور بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں پیچھے کیوں رہتے ۔
جوزف کالونی میں مٹی کے گروندوں کو نذر آتش کرنے والے کسی ہمدردی اور رعایت کے مستحق نہیں انہوں نے پورے شہر کیا ملک کے عوام کو اپنے آقا و مولا کے سامنے شرمندہ کیا ۔ احسان دانش مرحوم نے اپنی آپ بیتی ”جہان دانش‘ میں جیب تراشوں کے ایک خلیفہ کا ذکر کیا ہے جو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنے جیب تراش شاگردوں کی نگرانی کرتا ایک شام شاگرد نے سامنے سوا دو روپے لاکر رکھے تو خلیفہ کا پارہ چڑھ گیا ”ارے خبیث یہ کس غریب کو مار دیا ابے اتنے پیسوں پر بھی کوئی ہاتھ ڈالتا ہے خدا کو کیا جواب دیگا “
شاگرد نے عجز عرض کیا ” خلیفہ کیا بتاﺅں، میں نے ہاتھ تو کئی ہزار پر مارا تھا مگر وہ کم بخت انگریز تھا، مجھے پاکٹ مارنے کے بعد خیال آیا کہ قیامت کے میدان میں اگر حضرت عیسیٰ ؑ نے میرے آقا محمد سے گلہ کیا کہ آپ کے امتی نے میرے امتی کی جیب کاٹی تھی تو حضور کو ملال ہو گا اس لئے بٹوہ واپس کر دیا۔ پھر ایک سیٹھ کی جیب ٹٹولی تو یہ سوا دو روپے برآمد ہوئے ، خلیفہ نے شاگرد کی پیٹھ ٹھونکی، ماتھا چوما اور دس روپے انعام دیا شاید ہم اس جیب تراش کی ذہنی سطح سے بھی نیچے گر چکے ہیں ۔
جاگیردارانہ سماجی رویوں اور مادر پدر آزاد رجحانات کی مسلسل آبیاری کے سبب معاشرہ ایک بے ہنگم ہجوم میں بدل گیا ہے تہذیب و شائستگی ، نظم ضبط اور اخلاقی اقدار و روایات کے عاری ہجوم اپنے ردعمل کا اظہار ہمیشہ اسی انداز میں کرتا ہے اور ہمارے رہنما اس پر صدقے واری جاتے ہیں، صرف رہنما نہیں میڈیا کے جادوگر بھی۔ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک سے لیکر عدلیہ بحالی تحریک کا منظر سامنے لائیں اور ان تحریکوں کی قیادت کرنے والوں کے بیانات پڑھئے ۔ فوری نفسیات سمجھنے میں آسانی رہے گی ۔
دو ماہ پیشتر اسی ملک کے دارالحکومت میں کینڈین پلٹ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیروکاروں نے دھرنا دیا اور عام روش کے برعکس کوئی شیشہ توڑا نہ گملا تو ہماری قومی قیادت او رمیڈیا نے اس واقعہ کی ستائش کس انداز میں کی ؟ ان پرامن افراد کو سیاسی کارکن تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا گیا، روبوٹ ، اندھے، معتقد اور جذبات سے عاری مریدوں کی پھبتی کسی گئی جوزف کالونی، یوحنا آباد، کراچی کی زینب مارکیٹ اور شارع فیصل پر توڑ پھوڑ کرنے والوں کو گردن زدنی قرار دینے سے قبل کیکر کی کاشت کے کامیاب تجربہ پر سوچنا چاہئے کہ یہ کس کا کیا دھرا ہے ۔
روادار پاکستانی معاشرے کو بدامنی، عدم برداشت، سیاسی و مذہبی تفرقے اور بدترین انسانی رویوں سے روشناس کرانے والے بدبخت سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کئے بغیر اصلاح احوال ممکن ہے ؟ میری ناقص رائے میں ہرگز نہیں ہم خودشکنی کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور ہمارے رہبر رہنما ومحض اپنے گھٹیا سیاسی و مذہبی مفادات کی خاطر قوم کو اس مرض میں مسلسل مبتلا رکھنا چاہتے ہیں تبھی تبدیل کی ہر آواز پر وہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں کوئی عوام کی نمائندگی کا حق باکردار ، تجربہ کار، قوت فیصلہ کے مالک، خدمت کے جذب سے سرشار اور خدا ترس افراد اور گروہ کو دینے کی بات کرے تو ان پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ آئین کے آرٹیکلز218-63-62پر عملدرآمد کے مطالبہ کو جمہوریت دشمن سے تعبیر کرتے ہیں ۔
اس بناءپر موجودہ حکومت اور اپوزیشن اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کمیشن کو ماضی کی طرح بے اختیار رکھا جائے ، دھن، دھونس، دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتنے کا راستہ کھلا رہے تاکہ معاشرے کے چھٹے ہوئے بدمعاش، بدکردار، فائن، ٹیکس چور، قرضہ خور اور قانون شکن افراد پارلیمینٹ میں پہنچ کر موجودہ عوام دشمن تفرقہ باز اور تنگ نظر کلچر کا تحفظ فراہم کر سکیں ۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو انتخابی اصلاحات کی مخالف ہیں تبدیلی کی علمبردار تحریک انصاف نے بھی الیکشن کمیشن کی بے بسی، حکومت کی سینہ زوری اور اپوزیشن تحریک انصاف نے بھی الیکشن کمیشن کی بے بسی، حکومت کی سینہ زوری اور اپوزیشن کی دیدہ دلیر ی پر چپ سادھ لی ہے سانحہ بادامی باغ پر شوروغوغا مزید کتنے دن جاری رہے گا ؟ ہزارہ ٹاﺅن اور عباس ٹاﺅن کسی کو یاد ہے خدانخواستہ کوئی نیا سانحہ نہ ہوا توبالاخر سب انہیں جاگیرداروں، وڈیروں ، سرمایہ داروں اور ان کے پروردہ فتنہ پرور ،جرائم پیشہ اور عادی قانون شکنوں کو دوبارہ منتخب کرنے کے لئے کمرکس لیں گے تاکہ احتجاج، تشدد،سیاسی و مذہبی تفریق، توڑ پھوڑ اور غنڈہ گردی کے رجحانات خوش اسلوبی سے پروان چڑھتے رہیں کبھی عبیلہ مذہب، کبھی بنام وطن کہ اسی میں موجودہ نظام کی بقاءہے ۔
تازہ ترین