• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کینیا کے صدارتی انتخابات نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور کو محض مخمصے میں ہی نہیںڈالاایک سیاسی آزمائش سے دوچار بھی کردیاہے۔ امریکی ڈپلومیسی کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھنے والے اس افریقی ملک کے صدارتی انتخاب کو یقینی طور پرجیت جانے والے امیدوارکینیا کے پہلے صدرکے بیٹے یوہورو کنیاٹا (Uhuru Kenyatta) مغربی میڈیا کے ریکارڈ میں خوفناک جرائم اور کرپشن میں ملوث ہونے کے علاوہ اپنے والد کے عہد حکومت میں عورتوں اوربچوں کو بھاری تعدادمیں قتل کرنے والے ڈیتھ سکواڈز بنانے اور استعمال کرنے کے مجرم بھی ہیں اور ان کے ساتھ نائب صدارت کے امیدوار بھی انسان دشمنی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ مگر ویت نام سے اسرائیل تک ظالم حکمرانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سرپرستی کارویہ رکھنے والاامریکہ کینیا کے صدارتی انتخاب کی زبانی کلامی مخالفت سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے گا۔
بلاشبہ اپنے افریقی مفادات امریکہ کو کنیاٹا کی مخالفت نہ کرنے پر اکسائیں گے مگر افریقہ کے بیشتر ملکوںکو امریکہ کے خلاف کردیںگے لیکن امریکہ اگر کینیا کے صدارتی انتخابات کو نگل نہیں سکے گا تو اگل دینے سے بھی گریز کرے گا۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے کینیا کے صدارتی انتخابات قریب آرہے ہیں امریکی ڈپلومیٹس کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ بعض امریکی ڈپلومیٹس نے دبے دبے الفاظ میں کینیا کے بالغ ووٹروںکو تنبیہ کی ہے اوریہاںتک بھی کہہ دیا ہے کہ یہ کینیا کے بالغ ووٹروں کا حق ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ لیڈر چنیں مگر ان کے بعض فیصلے ملک اور قوم کے خلاف بھی جاسکتے ہیں۔ لیکن جب گزشتہ ہفتے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو کنیاٹا کے ووٹ پچاس فیصدی سے تجاوز کرگئے اورپوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ کنیاٹا کینیا کے نئے صدرہوںگے۔امریکی پوزیشن بہت سخت مشکلات سے درچارہونے کے باوجود کنیاٹاکی مخالفت نہیں کرسکتی ہے اور یہ کنیاٹا بھی جانتے ہیںکہ امریکہ کینیا کے لوگوں کے فیصلے کوقبول کرنے کا رسک لینے پرمجبور ہوگا۔امریکی صدر براک اوباما نے بھی فروری میںکہا تھا کہ اب فیصلہ کینیاکے عوام نے کرنا ہے کہ وہ کسے اپنا لیڈر منتخب کریں گے مگر امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس اشارے پر کہ کینیا کے عوام کو یہ انتخاب مہنگا پڑ سکتا ہے یوہوروکنیاٹا اوران کے نائب صدر کے امیدوار ولیو روٹو کی عوامی مقبولیت میں نمایاں اضافہ دکھائی دیااوران کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔مغربی میڈیا کے مطابق ابتدائی انتخاب میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والے کنیاٹا کینیا کے یقینی صدر ہوں گے اور وہ سوڈان کے البشیرکے بعد دوسرے افریقی لیڈرہوں گے جومنتخب ہونے کے بعد ہیگ کی عالمی عدالت میںاپنے خلاف الزامات کاسامناکریںگے مگر ضروری نہیںکہ ان کے ساتھ بھی البشیر جیساسلوک ہو جو کہ گرفتاری کے وارنٹوں سے آگے آگے بھاگے پھرتے ہیں۔ سوڈان کے بشیر نے تو عالمی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے ہی انکار کردیا تھا مگر کنیاٹا اپنے خلاف تمام الزامات میں عدالت کے اندر صفائی پیش کریں گے چنانچہ ان کے خلاف کوئی وارنٹ نہیں ہوگا۔البشیرکے دور میں امریکہ اور سوڈان کے درمیان اچھے تعلقات نہیں تھے۔ اس کے مقابلے میںامریکہ اور کینیا کے تعلقات مثالی تصورکئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے امریکی جاسوسی ادارے کینیا کے تعاون سے ”القاعدہ“ کے رہے سہے کارکنوں کے قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ البشیر پراُسامہ بن لادن سے خصوصی دوستی کاامریکی الزام بھی تھا۔ کینیا امریکی جاسوسی ادارے سے تعاون کے لئے امریکہ سے سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد بھی حاصل کرتاہے چنانچہ ممکن ہے کہ عالمی عدالت ِ انصاف کنیاٹا کو البشیر سے مختلف انصاف فراہم کرے۔ عدالتیں انصاف کے تقاضوں کے علاوہ معروضی اورزمینی حقائق کوبھی پیش نظر رکھ سکتی ہیں اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی کچھ زیاہ سختی سے باندھی نہیںجاسکتی۔ انصاف اگراسرائیل سے تہران پہنچتے پہنچتے تبدیل ہوسکتا ہے تو کینیاپر زیادہ توجہ دینے سے ہیگ کی عدالت ِ انصاف بھی احتیاط کرسکتی ہے
تازہ ترین