• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت پوری دنیا پر عیاں ہے کہ امنِ عالم کے لئے افغان امن ناگزیر ہے اور یہ بھی کہ اس کا حل باہمی گفت و شنید سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان، جو دسمبر 1979سے افغانستان کے معاملات کا بغور مشاہدہ کرتا چلا آیا ہے اس کا یہی موقف رہا اور ہے کہ جنگ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ دنیا نے قدرے تاخیر سے سہی یہ حقیقت سمجھ لی اور اب افغان امن مذاکرات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ جلد اُن کا کوئی پُرامن، آبرو مندانہ اور فریقین کے لئے قابلِ قبول حل سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد، جنہوں نے چند روز قبل پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کی تھیں نے ملا برادر اور طالبان کے سیاسی امور کے نائب سربراہ سے قطر میں ملاقات کی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ملاقات میں ملا محمد فاضل، ملا خیراللہ خیرخوا اور مولوی امیر خان متقی سمیت طالبان کی سینئر قیادت موجود تھی جبکہ قطر کے وزیر خارجہ نے بھی ملاقات میں شرکت کی۔ شرکا نے امن عمل سمیت مستقبل میں کئے جانے والے اہم اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ متذکرہ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، اس لئے بھی کہ ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان کا حامی پاکستان سے زیادہ کوئی اور نہ تھا اور نہ ہے۔ ستمبر 1999میں یہ مذاکرات کم و بیش طے پا چکے تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں ’’مردہ‘‘ قرار دے کر ختم کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ساری محنت اکارت جاتی پاکستان نے پھر سے امن مذاکرات پر زور دیا جس کے ثمرات اب طالبان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی مذاکرات میں شرکت کی صورت سامنے آ رہے ہیں۔ امید ہے کہ امریکہ بھی اب مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائے گا اور افغانستان اور دنیا کو امن کی نوید ملے گی۔ ضروری ہے کہ فریقین اب اس عمل میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ آنے دیں۔

تازہ ترین