• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے میں قیامِ امن کے حوالے سے پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

پولیس کے افسران اور جوان جرائم کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہیں اور امن و امان کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

سندھ پولیس کی تاریخ بھی ایسی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ دنوں آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے سندھ پولیس کے شہدا کی عظیم قربانیوں کی یاد میں اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے سینٹرل پولیس آفس (CPO) کراچی میں ’’یادگار شہدا‘‘ تقریب کا انعقاد کیا جس میں شہدا کی فیملیوں، سندھ کے سابق آئی جیز افضل شگری، نیاز صدیقی، اقبال محمود، اکبر آرائیں، سعود مرزا، ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز اور اعلیٰ پولیس افسران بڑی تعداد میں موجود تھے۔

تقریب کی منفرد بات یہ تھی کہ آئی جی سندھ کلیم امام نے ’’یادگار شہدا‘‘ کا افتتاح خود کرنے کے بجائے شہداکی فیملیوں سے کروایا۔ وہ منظر بہت ہی جذباتی تھا جب شہدا کی فیملیوں نے نم آنکھوں کے ساتھ یادگار شہدا کا افتتاح کیا جس کی سیاہ ماربل کی تختی پر سندھ پولیس کے اُن شہید افسران اور جوانوں کے نام درج تھے جنہوں نے اپنے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس موقع پر پولیس کے چاق و چوبند دستوں نے شہداکی فیملیوں کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے کہا کہ امن و امان کی خاطر پولیس کے شہداکی قربانیاں قابل ستائش ہیں اور شہادت کے رتبے پر فائز ہونا میری بھی اولین خواہش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر انسان کو ایک نہ ایک دن دنیا سے جانا ہے مگر قومی مفاد کی خاطر اپنی جان قربان کردینا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ کراچی کے حوالے سے آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ آج شہر میں امن قائم کرنے میں سندھ پولیس کے جوانوں کی قربانیاں شامل ہیں۔

انہوں نے شہداکے ورثاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی لمحہ خود کو تنہا ہرگز محسوس نہ کریں، محکمہ پولیس ہر مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہے۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ پولیس ہیڈ آفس کی یہ عمارت ماضی کی عمارت سے بہت مختلف ہے۔

آج اس عمارت میں جو شخص بھی آئے گا، وہ ’’یادگار شہدا‘‘ سے گزرکر آئے گا اور سندھ پولیس کے شہداکی قربانیوں کو یاد رکھے گا۔ اس موقع پر ڈی آئی جی سیکورٹی آپریشنز مقصود میمن جنہوں نے 6ماہ کے قلیل عرصے میں ’’یادگار شہدا‘‘ کی تکمیل کروائی اور سینٹرل پولیس آفس میں تزئین و آرائش کا کام اپنی نگرانی میں مکمل کروایا، نے اپنی تقریر میں بتایا کہ یادگار شہدا کی تختی پر سندھ پولیس کے 2188شہدا کے نام درج ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل تک سینٹرل پولیس آفس کی اس بلڈنگ کی حالت زبوں حالی کا شکار تھی لیکن آئی جی سندھ کلیم امام کی ہدایت پر بلڈنگ کی تزئین و آرائش کی گئی اور آج آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع یہ عمارت کارپوریٹ بلڈنگ کا منظر پیش کرتی ہے۔

مقصود میمن نے بتایا کہ آئی جی سندھ کے احکامات پر تھانوں کی حالت بہتر کرنے کیلئے بھی پندرہ پندرہ لاکھ روپے جاری کئے گئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جرائم میں نمایاں کمی کی وجہ سے کراچی امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے دنیا میں ساتویں نمبر سے 88ویں نمبر پر آچکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام کا سہرا یقیناً پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے سر جاتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر 7500سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ سندھ میں پولیس کے شہید افسران اور جوانوں کی تعداد 2300ہے جن میں 660شہدا کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔

90کی دہائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب جرائم پیشہ عناصر، پولیس کارروائیوں پر حاوی ہونے لگے تھے اور ’’کراچی آپریشن‘‘ میں حصہ لینے والے پولیس افسران اور اہلکار خود ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہورہے تھے۔

پولیس کے بارے میں عوام کی شکایات اپنی جگہ لیکن کراچی آپریشن اور شہر میں امن کی خاطر شہید ہونے والے پولیس افسران اور جوانوں کی اتنی بڑی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے جب سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے، پولیس کا مورال بلند کرنے، تھانہ کلچر اور محکمے میں انقلابی تبدیلیاں لانے، میرٹ پر تقرریاں کرنے اور جرائم پر قابو پانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور اِس بات کی تصدیق گزشتہ دنوں ورلڈ کرائم انڈیکس سروے کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ سے ہوتی ہے جس کے مطابق کراچی میں جرائم کی شرح میں کمی کے باعث شہر کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔

مذکورہ رپورٹ دنیا بھر کے 374شہروں میں سروے کے بعد جاری کی گئی ہے جس میں کراچی 22درجے بہتری کے بعد 66ویں نمبر سے 88ویں نمبر پر پہنچ آچکا ہے جبکہ اسلام آباد69 درجے بہتری کے بعد سڈنی، برلن، ماسکو، لندن، پیرس اور شنگھائی کو مات دیتے ہوئے دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی رینکنگ میں 301ویں نمبر پر آگیا ہے جس پر آئی جی سندھ کلیم امام اور آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار خان یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ بالخصوص کراچی میں قیام امن کے حوالے سے جاری کردہ عالمی ادارے کی رپورٹ کے بعد صوبائی حکومت بھی آئی جی سندھ کلیم امام کی خدمات کا اعتراف کرتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت، عالمی ادارے کی رپورٹ سے متفق نظر نہیں آتی اور آئی جی سندھ کی خدمات کو سراہنے کے بجائے اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں۔

تازہ ترین