• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈائمنڈ کروز صرف بحری جہاز ہی نہیں بلکہ ایک چلتا پھرتا فائیو اسٹار ہوٹل نما شہرتھا جہاں داخل ہوتے ہی سمندر کے اوپر چلتی پھرتی ایک نئی دنیا سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ بہترین شاپنگ مالز، دنیا کی اعلیٰ ترین برانڈز کے اسٹورز، مہنگے ترین ریستوران، خوبصورت سینما ہالز، سوئمنگ پولز اور رہائش کے لیے بہترین اور اعلیٰ معیار کے کمرے، غرض دنیا کے امیر ترین افراد کے لیے مصروف زندگی میں سے کچھ دن آرام دینے کے لیے سمندر کے اوپر خوبصورت اور تمام تر رعنائیاں لیے ایک شہر تیار کیا گیا تھا جس میں چار ہزار کے لگ بھگ مسافر اور عملے کے افراد باآسانی سفر کر سکتے تھے۔ یہ جہاز صرف تین سال قبل ہی تیار کیا گیا تھا۔ اس جہاز کی قیمت چھ سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس جہاز میں سفر کرنے کے لیے کئی کئی مہینوں قبل بکنگ کرائی جاتی تھی اور پھر چند ہفتے قبل ڈائمنڈ کروز نامی یہ بحری جہاز تین ہزار سات سو افراد کو لے کر روانہ ہوا۔ پھر دنیا میں اچانک کرونا وائرس کی وبا نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چین کا شہر ووہان سب سے زیادہ متاثر شہر بتایا جارہا ہے جہاں سے چینی حکومت نے کسی بھی شہری کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ کرونا نامی وائرس نے ڈائمنڈ کروز جہاز پر بھی حملہ کردیا ہے، چین سے تعلق رکھنے والے چند افراد سمیت کچھ غیرملکی جنہوں نے حال ہی میں چین کا سفر کیا تھا اور اس جہاز میں سوار تھے وہ بیمار ہوئے، جہاز میں موجود اسپتال میں علاج شروع ہوا، ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ کرونا وائرس اس بحری جہاز پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے۔ جہاز پر کہرام مچ گیا، زندگی کی خوشیاں موت کے غم میں تبدیل ہو گئیں، ہر فرد فوری طور پر بحری جہاز سے نکل کر اپنے اپنے ملک جانا چاہتا تھا لیکن جیسے ہی جہاز جاپان کی پورٹ کے قریب پہنچا اور جہاز کے عملے نے جاپان میں لنگر انداز ہونے کی اجازت طلب کی تو حکومتِ جاپان نے انکار کرتے ہوئے اسے جاپانی حدود میں گہرے پانیوں میں لنگر انداز کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ ابتدا میں کرونا وائرس جہاز کے صرف چھ افراد میں پایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعداد ساٹھ تک پہنچ گئی۔ اطلاعات کے مطابق جہاز کے اندر ہر مسافر اپنے اپنے کمروں تک محدود ہو کررہ گیا ہے، جاپانی حکام تمام مسافروں کا باقاعدہ چیک اپ کررہے ہیں تاکہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے جبکہ مسافروں کو جہاز چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ دعا ہے کہ جہاز میں موجود تمام مسافر خیر و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے ممالک پہنچ سکیں۔ چین کے بعد جاپان میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کے مریض موجود ہیں۔ جاپان چینی شہریوں کا پسندیدہ ملک ہے جہاں چند ہفتے قبل چینی نئے سال کی تعطیلات گزارنے بہت بڑی تعداد میں آئے تھے اور یہیں سے کرونا وائرس جاپان میں داخل ہوا۔ چینی سیاحوں سے جاپان میں تیزی سے پھیلنے والا کرونا وائرس اس وقت جاپانی حکومت اور عوام کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ فیس ماسک کم پڑ چکے ہیں، سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہو چکی ہے، جس سے جاپان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جاپان میں اگلے چند ماہ میں ہونے والے اولمپک مقابلوں پر بھی خطرات منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں بچوں کو کرونا وائرس سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات زوروشور سے جاری ہیں۔ ملک میں کرونا وائرس کے حوالے سے افواہوں کا بازار بھی گرم ہے یہی وجہ ہے کہ جاپانی حکومت نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور احتیاط برتیں۔ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پھیلانے پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ ائیر پورٹ پر آنے والے مسافروں کی سخت اسکر یننگ کی جارہی ہے۔ سنگاپور میں بھی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چین اور جاپان کے بعد سنگاپور میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ جس طرح چین، جاپان اور سنگاپور کی حکومت اپنے اپنے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے عمل پیرا ہیں۔ توقع ہے کہ حکومتِ پاکستان بھی ملک میں کرونا کی روک تھام کے لیے بھرپور اقدامات کرے گی۔

تازہ ترین