• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی۔ با اختیار بلدیاتی ادارے ختم کرواسکتے ہیں؟

اپنا 70 کی دہائی کا ایک شعر بار بار یاد آرہا ہے:

مسئلے جیسے چٹانیں، رہنما جیسے ہوا

وقت نے کتنے فلک بوسوں کو بونا کردیا

مسئلے سارے اسی طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ بالکل نوکیلی چٹانوں کی طرح۔ ہوائیں سر ٹکرارہی ہیں۔ کوئی چٹان اپنی جگہ سے نہیں سرک رہی۔

سب پریشان ہیں۔ ادنیٰ۔ اعلیٰ۔ چھوٹے بڑے۔ غریبوں کی جیبیں۔ سیٹھوں کی تجوریاں جواب دے رہی ہیں۔ پریشانی نے طبقاتی فرق ختم کردیا ہے۔

ایک قوم کی حیثیت سے پریشانیوں کا تریاق تو کسی باقاعدہ نظام میں تلاش کیا جاتا ہے۔ سب مل جل کر کوئی سسٹم بناتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ہر درد کی دوا بھی کسی ایک شخصیت میں ڈھونڈی جاتی ہے۔ اور ہر درد کا سبب بھی کسی ایک فرد کو مان لیا جاتا ہے۔ پہلے عمران خان سے ہم سب کو امیدیں تھیں۔ اب ہر بحران کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ کسی دلیل۔ کسی منطق۔ کسی دانش کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی جارہی ۔

ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ ایوان کے اندر تبدیلی لائی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک عظیم سیاسی طاقت ہے۔ قابل قدر۔ قابل بھروسہ ۔ اس میں ایک سے ایک بڑا لیڈر موجود ہے صرف عمران خان پر ہی گزارہ کیوں کیا جائے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سب مانتے بھی ہیں کہ پی ٹی آئی عمران خان کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کو آزمائش میں ڈالا جارہا ہے۔ وہ تاجروں۔ صنعت کاروں۔ اور ماہرین تعلیم کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔

ایک طبقہ ان ہائوس تبدیلی کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ کررہا ہے۔کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا انتخابی نظام درست ہوگیا ہے۔ کیا اب اچھے قابل دانشور۔ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین الیکشن لڑ سکیں گے۔ کیا اب الیکشن کے لئے کروڑوں روپے درکار نہیں ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا سیلیکٹ کرنے والے توبہ کرچکے ہیں یا ہمیں اعتراض صرف عمران خان پر تھا۔

ایسی خواہشات صرف جذباتی باتیں ہوتی ہیں۔ مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔

بعض کو اسحٰق ڈار صاحب کے بنگلے کو پناہ گاہ بنانے پر اعتراض ہے۔ بعض کا مطالبہ ہے کہ چک شہزاد میں سابق صدر پرویز مشرف کے فارم ہائوس کو بھی پناہ گاہ بنایا جائے۔ ویسے تو یہ عبرت کا مقام ہے۔ اگر آنکھیں رکھنے والے واقعی عبرت حاصل کرنا چاہئیں۔

پرنٹ ہو۔ الیکٹرونک میڈیا۔ اور سب سے زیادہ سوشل میڈیا۔ ان کی باتیں سنیں تو لگتا ہے ۔ عمران خان اپنے سارے کھلاڑیوں۔ حفیظ شیخ۔ رزاق دائود۔ ڈاکٹر عشرت حسین۔ شبر زیدی سمیت ناکام ہوچکے ہیں۔ شبر زیدی تو منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔رجحان وہی ہے کہ نظام کے بجائے شخصیات پر ہی انحصار کیا جارہا ہے۔ ان کو بدلنا ہی راہِ نجات خیال کی جارہی ہے۔چند مہینے بعد پھر یہی واویلا ہوگا۔ جیسے اسد عمر واپس آگئے ہیں۔ مگر وہ بھی کچھ کر نہیں پارہے ۔ 70کی دہائی تک ہمارا نظام کافی حد تک مناسب چل رہا تھا۔ اس کے بعد اسے بتدریج مفلوج کیا گیا ہے۔ جو بھی قواعد و ضوابط تھے ان کی جانچ پڑتال کرنے والے انسپکٹر آڈیٹر موجود ہوتے تھے۔ وہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے کر خرابیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ متعلقہ ذمہ داروں سے باز پرس ہوتی تھی۔ اب انسپکٹر۔ آڈیٹر سب خرابیاں پیدا کرنے والوں کے ساتھ جوڑ توڑ کرچکے ہیں۔ جیسی تیسی رپورٹیں بنتی ہیں۔ ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔

اِن ہائوس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس کا تجربہ میاں نواز شریف کو ہٹاکر جناب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بناکر کیا جاچکا ہے۔ نئے انتخابات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ۔

مہذب ملکوں کی طرح ہم اپنے نظام کو بتدریج درست کریں۔ 22کروڑ پاکستانی اپنی اہمیت سمجھیں۔ سیاسی کارکن اپنی وقعت کا احساس کریں۔ اتنی یونیورسٹیاں لاکھوں طلبہ و طالبات کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ حرکت میں آئیں۔ ان کی تحقیق انہیں بتارہی ہے کہ اصل خرابی کہاں ہے۔ حکمرانی کا نظام بلدیاتی اداروں کے بغیر نامکمل ہے۔ بلدیاتی اداروں کو ان کے اختیارات واپس کریں۔ مہنگائی پر قابو وہ پاسکتے ہیں۔ مارکیٹیں وہ سنوار سکتے ہیں۔ قیمتوں پر کنٹرول مقامی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے۔ انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ ایک کونسلر کو اپنے علاقے میں اپنی ذمہ داریاں دلچسپی سے بھرپور انداز میں انجام دینے دیں۔ کونسلر۔ چیئرمین۔ میئر۔ سب کو شہر ،قصبے سنبھالنے دیں۔ اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں رکاوٹیں مقامی حکومتیں اور صوبائی حکومتیں مل کر دور کرسکتی ہیں۔ وزیر اعظم اس میں کچھ نہیں کرسکتا۔حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ میٹنگیں ہورہی ہیں۔ دعوے کئے جارہے ہیں کہ مہنگائی کے ذمہ داروں کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ ہزاروں دکانیں کھولی جارہی ہیں۔ جہاں چیزیں سستی ملیں گی۔ پہلے مہنگائی کا توڑ اتوار بازار۔ جمعہ بازارسمجھے گئے۔ وہ ایک الگ کاروبار بن گیا۔ مہنگائی اور زیادہ ہوگئی۔ ایک اور مافیا نے جنم لے لیا۔ پاکستان میں عام لوگوں کی ضرورت کی کسی بھی شے کی کمی نہیں ہے۔ گندم۔ چاول۔ چینی۔ دالیں۔ گوشت سب کچھ موجود ہے۔ حکمرانی کے حقیقی نظام کو بحال کریں۔ سارے ایوان اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ہر ادارہ اپنا اپنا کام کرے تو مسئلے چٹانیں نہیں بن سکیں گے۔ خیال رہے کہ مسئلے انسان سے بڑے نہیں ہوسکتے۔ جس طرح عمران خان کولانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح عمران خان کے جانے سے بھی ریلیف نہیں ملے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین