• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت ایک سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، حکومت نے ایک سال میں تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے کے بیرونی اور اندرونی قرضے لئے ہیں، ان حالات میں جب کہ ہمارے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں یہ قرضے کیسے واپس کئے جائیں گے، درآمدات میں کچھ کمی ضرور ہوئی ہے لیکن برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے، نجی بچت اور سرمایہ کاری ماند پڑ گئی ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات اس غیرتسلی بخش صورتحال کا ذمہ دارحکومت کی غلط اقتصادی حکمتِ عملی کو قرار دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے، ادائیگی کے توازن کو ٹھیک کرنے کا واحد طریقہ برآمدات میں اضافہ اور غیرضروری درآمدات میں خاطر خواہ کمی لانے میں ہے۔ برآمدات میں اضافہ ملکی پیدوار سے وابستہ ہے جس کی توقع حکومت سے نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس ملک کی اشرافیہ غیر ضروری اشیائے تعیش کی درآمدات میں کمی کی اجازت دے گی۔ ملک میں اگر کوئی چیز منظم ہے تو وہ مہنگائی مافیا ہے کہ جس نے مارکیٹ فورسز اور انتظامیہ کے کنٹرول کو مکمل طور پر اپنا تابع کر لیا ہے اور یوں ملک ایک غیرقانونی متوازی معیشت کا شکار ہے۔ اس مافیا نے چمن اور طورخم بارڈر کے ذریعے گندم کو ملک سے باہر بھیجا ہے جس کی وجہ سے پاکستان جو گندم برآمد کرنے والا ملک تھا، گندم درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔ پاکستان میں مہنگائی ناپنے کا اہم ترین پیمانہ گندم کی قیمت ہے جو عوام کی بنیادی غذا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بھی مسائل کا شکار ہے یہ صنعت ہماری قومی پیداوار کا ساڑھے آٹھ فیصد ہے جو ملک کی پینتالیس فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ اس ماہ بجلی کے اضافی سرچارج لگا کر فی یونٹ نرخ بارہ روپے سے بڑھا کر بیس روپے کردیے گئے ہیں جس سے تقریباً سو ملیں بند ہوچکی ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو مزید ملوں کے بند ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ نوجوان اور مزدور بھی پریشان ہیں پچھلے دنوں اسٹیل مل کے سات ہزار مزدوروں نے اپنے واجبات کی ادائیگی کے لئے علامتی بھوک ہڑتال کی ہے۔جو مزدور 2013سے ریٹائرڈ ہوئے انہیں اب تک اپنے بقایا جات سے محروم رکھا گیا ہے ،یہ مزدور نہ صرف اپنی گریجویٹی سے محروم ہیں بلکہ پراویڈنٹ فنڈ اور بقایا چھٹیوں کی مد میں ملنے والی رقومات سے بھی محروم ہیں ان میں بعض مزدوروں نے چالیس سال سے زیادہ نوکری کی ہے لیکن اب وہ دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔سونے پر سہاگہ کہ اسٹیل مل کی انتظامیہ نے ای او بی آئی کی پنشن کی مد میں ملازمین کی تنخواہوں سے کٹنی والی کنٹری بیوشن رقم کو بھی ای او بی آئی کے ادارے میں جمع نہیں کرایا جس کی وجہ سے ان ملازمین کو ان کی جائز پنشن سے بھی محروم کردیا گیا ہے ۔ ماہر ین معاشیات کا کہناہے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مزید لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور کئی لاکھ لوگ بے روزگاری کا شکار ہوئےہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ لاکھوں مزدوروں کی محنت کے بغیر صنعت کا پہیہ نہیں چل سکتا پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ملک کی ترقی کی خاطر سرمایہ دار کے تحفظ کا تو بار بار خیال آتا ہے لیکن محنت کشوں کے قانونی تحفظ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ۔ ہمارے محنت کشوں نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ انہیں آئینی تحفظ دیا جائے ورنہ وہ کام نہیں کریں گے ،وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں روزگار کی ضمانت دی جائے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ اکیسویں صدی میں تمام مظلوم طبقات جن میں مزدور ،کسان اورطالب علم شامل ہیں انہیں روزگار کا آئینی تحفظ فراہم کیا جائے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جن پر عمل کرکے ان طبقوں کی معاشی حالت میں بہتری آئے اور یہ محنت کرکے اس ملک کو ترقی کی جانب گامزن کردیں۔

اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ جب تک ملک کو جاگیرداروں ،قبائلی سرداروں، نا اہل حکمرانوں اور مافیاز کے خاندانوں کے چنگل سے آزاد کرکے عوامی جمہوری راج قائم نہیں کیا جاتا معاشی زبوں حالی سےنجات حاصل نہیں ہوگی۔

تازہ ترین