• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب بدل گیا۔اب بدلیں گے پاکستان۔ یہ ہیں عزائم اُن قائدین کے جو پچھلے سترہ سال سے پنجاب کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔ ”سب کچھ جل گیا“اوریہ ہے آہ و بکا ،جوزف کالونی (بادامی باغ) کی مفلوک الحال عیسائی برادری کی سینہ کوبی کرتے ہوئے۔عیسائی بستی نہیں جلی! مذہب، تہذیب، تمدن، شرافت، عزت، وقار، اقدار، ساکھ، رواداری، سچائی،دیانت، فہم،فراست،گورننس سب کچھ جل گیا۔ پورا ملک سوگ میں ہے ۔
عظیم فلسفی اور دانشورمیکاؤلی نے 500 سال پہلے اچھی حکمرانی کے بے شمار رہنما اصول وضع کیے۔ ان میں ایک سنہری اصول یہ کہ ”مقتدر سیاسی اشرافیہ کو یہ جان لینا چاہیے کہ امراء اور اشرافیہ کو اپنی جان اپنے مال و جائیداد سے زیادہ عزیزرہے گی، جبکہ غریب عوام کو اپنا مال اپنی جان سے زیادہ عزیزرہے گا۔چنانچہ اچھے حکمران کی پہلی اور بنیادی ترجیح امراء کی جان اور غریب لوگوں کے مال اور جائیداد کی حفاظت ہی رہے“ ۔روزِ آفرینش سے زندگی ہمیشہ غریب پر بوجھ ہی رہی جبکہ مال کا نقصان ان کی زندگی بھرکا روگ ہے۔ جوزف کالونی کے رہائشیوں کی اکثریت تو غربت کی بھی تلچھٹ تھی۔ سرکاری سطح پر ایک دن پہلے مسیحی بستی میں خوف و ہراس پھیلایا گیاکہ” گھر چھوڑ دو،جان بچاؤ،بھاگ لو“چہ معنی ۔60 سال کی بستی بستے بسی تھی کہ اجڑ گئی ۔ نجم سیٹھی صاحب نے خادمِ اعلیٰ کو موردِ الزام ٹھہرایا انہوں نے کہا کہ لینڈ مافیا ، ایک MPA اور ن لیگ کے کارکن حکام بالا کے اشارے پر جرم کے مرتکب ہوئے۔ خادم ِاعلیٰ کو ساری تباہی کاذمہ دار ٹھہرایا۔
سوالات جو معمہ بن چکے ۔ پولیس کو بستی خالی کروانے کی ہدایات دینے والا کو ن شخص ہے؟ وہ ایک درجن افراد کون تھے جو علاقے کے مکینوں کو ورغلا کر لائے اور حملہ آور ہوئے؟ علاقے سے پولیس ہٹا کر کس کے اشارے پر غیرمحفوظ بنادیا ؟ کئی لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ ایک مشہور بدمعاش جسے حکومتی سرپرستی حاصل تھی کیا وہ اس آپریشن کا سرغنہ تھا؟ لینڈ مافیا ،کمیشن اور حکومتی ٹھیکوں کی طاقت پرجرائم پیشہ لوگ مافیا بن چکے ہیں۔بات دور نکل جائے گی لیکن ذکر ایک سیاستدان ویٹو کاجومافیا ڈان رہااور اٹلی کا وزیراعظم بنتے بنتے رہ گیا۔ کرسچین ڈیموکرٹیک پارٹی کی سربراہی سے معزول ہوئے بغیرسیدھا جیل گیا اور وہیں مرا۔ ”ویٹو“ کی کہانی کسی اور موقع پر لیکن” پاکستانی سیاست “کو جس طرح لینڈ ، ڈرگ، کمیشن ، کنٹر یکٹ مافیا نے اپنے قبضہ استبداد میں لیا ہے Vito Cianciminoکی ہوشربا داستان کی تکرار ہی تو ہے ۔چند ماہ پہلے توہین رسالت پر عوام کا غضبناک ردعمل سامنے آیا تو ہزاروں بپھرے ہوئے لوگ جب امریکن قونصل خانے کی طرف بڑھے تو رینجرز اور پولیس سیسہ پلائی دیوار بن گئے ۔ جوزف کالو نی کو غنڈوں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟
خادم اعلیٰ آپ کہاں تھے ۔کیا آداب حکمرانی ردعمل ہی ہے یا پیش بندی کا شعبہ بھی کھولا جا سکتا ہے۔ اشک شوئی تو آپ کے احساسِ جرم کو ہی اجاگر کرے گی۔آپ کی سلطنت میں عیسائی، شیعہ اوربریلوی ہی نشانہ کیوں؟ شقاوت کا یہ عالم کہ سانحے کے دوسرے دن اپنی روایتی پھرتی کے ساتھ جائے حادثہ پر جا کرجب فلم بنوائی تو درجنوں مصاحبین کے نعرے ٹی وی سکرین سے باہر آرہے تھے۔ شہباز شریف زندہ باد۔ کس بات پر زندہ باد۔ صاحبزادہ فضل کریم بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ ”دہشت گردی رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ایک سرکاری محکمہ بن چکی ہے۔“ ساری سیاسی جماعتیں، سارے ٹی وی چینلز اور ان کے شرکا ببانگ ِدہل گوجرہ سمیت ایسی ساری وارداتوں کا کھرا اُن کی طرف لے جاتے ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں سری لنکن ٹیم، مناواں حملہ ، علامہ اقبال ٹاؤن اور داتا صاحب پر حملوں نے حکومت کے چھکے تو چھڑاہی دئیے ،عوام کا سکون بھی لوٹ لیا۔ان حملوں میں جس طرح دہشت گرد کئی گھنٹے پاکستان کے دل کو کچلتے رہے انہوں نے حکمرانوں کے نظم و نسق کا تمسخر بھی اڑایا اور تضحیک بھی کی۔ آنے والے دنوں میں مصاحبین کی قلم توڑ تحریریں،جوزف بستی کی کیا توجیحات پیش کرتی ہیں سچ کا ایک اور جنازہ تیاری میں ہے۔اس کے باوجود مصر ہیں یہی چراغ جلیں گے تو روشنیاں ہوں گی۔
عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لے لیا۔ مائی لارڈ آپ پر قرض ہے دودھ کو پانی سے جدا کرنے کا۔ ہمارے صوبے میں عیاری فنون لطیفہ کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ ایک ہی تفتیش میں بے شمار مالی سکینڈل ، بدانتظامی ، نالائقی سامنے آئے گی کئی عقد ے کھلیں گے۔ اسی سال پنجاب حکومت کی مد میں 800 بلین روپیہ آیا جو سیاسی اللے تللوں کی نذر ہوگیا۔ سیاسی قد کو اگر توانائی ملی بھی تو تحریک انصاف پشاور کے جلسے نے زمین بوس کر دی ۔ ایک بیکری والا سودا نہیں دیتا تو ہڈیاں تڑوالیتا ہے۔ ابھی کل ہی برطانیہ کے سابق وزیرکرس ہون کو 8 ماہ جیل کی سزااس بنا سنائی گئی کہ2003 میں ٹریفک قانون وزیر نے خود توڑاجبکہ چالان بیوی کا کروایا۔”عدل جہانگیری“ کا فرق صاف ظاہر ہے۔ نیم خواندہ خائن یہ بتاتے پھرتے ہیں ”سچ کیا ہے“۔ میرے ذرائع بچوں کے رسالے نہیں۔ پاکستان ایمبسی سے کنفرم کریں کہ مشرف کے ساتھ پاکستان آنے کا محفوظ راستہ کہاں اور کیسے طے پایا؟وارث شاہ نے گَل مکا دیتی ”سرتے ٹوپی، نیت کھوٹی“۔باقی کسی عالم دین سے یہ پوچھیں کہ لوٹ کھسوٹ ، چوری، حرام کی کمائی کے بعد مکہ مدینہ کی حاضری کس درجے میں آئے گی۔ 100 ارب کی جنگلہ ایکسپریس کی کلین چٹ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے عادل گیلانی ہی دیں گے۔ پاکستان کے ادارے تو جیل ہی بھیجیں گے۔ خدارا عیسائیوں پر ٹوٹنے والی قیامت صغریٰ کی تحقیقات سکاٹ لینڈ یارڈکو نہ دے دیں۔ کیا مزاحیہ ملک بن چکا محترمہ بے نظیردن دہاڑے شواہد کی موجودگی میں قتل ہوئیں تحقیقات یواین سے کروائی گئی۔ جنگلہ ایکسپریس کو کلین چٹ جرمنی کا ادارہ دے گا۔آ ج مرکزی حکومت یا صوبائی حکومتیں انگ انگ نالائقی، بدنیتی، کرپشن اور سیاسی اللے تللوں کی داستان رقم کر رہی ہیں۔ الیکشن جوں جوں قریب آرہا ہے قومی سرمائے کو لٹانے کا بازار سج چکاہے۔ٹی وی چینلز سرکاری خرچ پر ان کی سیاست کی ترویج میں جت چکے ہیں۔تعفن بھی اور تفنن بھی۔
الیکشن کمیشن کے دو معزز ممبران جسٹس سجاد اکبر اور جسٹس ریاض کیانی نے تو گویا دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے کیا فرمایا”ٹیکس چور، لٹیرے، ڈاکو، دھوکے باز، خائن کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے وگرنہ بدترین لوگ حکمران بن جائیں گے۔“ اس پر مصاحبین کی ایسی بلبلاہٹ۔ برادرم شعیب بن عزیز کامشہور قول کہ” کسی سے سچ کا مذاق نہ کرو“۔ایک معزز کالم نویس جو اپنے قائدین کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی کے فن میں یکتا ہیں اور عمران خان ،سونامی خان یا پاکستان خان کا نام سامنے ہو توہذیان شروع ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بیل کو سرخ کپڑادکھا دیا ۔ فرماتے ہیں الیکشن کمیشن کو کیا حق پہنچتا ہے احتساب کرنے کا۔ آفرین ،صدقے واری جاؤں اٹھائی گیروں، دھوکے بازوں، نوسربازوں کی موجودگی میں الیکشن شفاف ہوں گے کہ گدلے؟۔ حضور قومی مجرم اگر جیل میں اور انتخابی عمل سے باہر ہوں گے تو الیکشن کی ساکھ تب ہی بن پائے گی۔آج کل سرکاری مصاحبین جو کچھ لکھ رہے ہیں اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔
شیخ ابو سعید  کا واقعہ ہے گھرمیں کئی روز سے فاقہ کشی تھی۔ بیوی کے اصرار پر باہر نکلے اور سوال کیا ۔ جو مانگاوہ پا لیا۔ گھر کی طرف چلے ہی تھے کہ کوتوال نے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا اور سزا کے طور پر ایک ہاتھ قلم کر دیا۔ آپ ترشاہوا ہاتھ اٹھا کر گھر لے آئے اسے سامنے رکھ کر رویا کرتے تھے کہ اے ہاتھ تو نے طمع کی اور تو نے سوال کیا سو تو نے اپنا انجام دیکھا۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ” پس افسوس ہے ان کے لیے بوجہ اس کے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا (اور گمراہ کیا)اور افسوس ہے ان کے لیے جو بوجہ اس کے جو کچھ وہ اس سے کماتے ہیں“۔دانشور منافع خور ہو جائے، طمع بڑھ جائے تو علم اور عقل میں گراوٹ لازم۔ وزیر، سفیر، مشیر، فقیر مقدر ضرور بن جاتا ہے لیکن ٹھکاناپستی ہی رہتا ہے۔تقریریں سنیں پنجاب کی کایا پلٹ چکی۔ ”سبز باغ“کی بہار پانچ سالہ دور کے اختتام پرآج جوبن پر ہے۔ وطن عزیز کے مفلوک الحال لوگو تمہارے پاؤں کے نیچے جو سرسراہٹ ہے یہ دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔ پنجاب کے حکمران آج عوام کے ساتھ ٹرک ڈرائیورہوٹل پر کھانا کھا رہے ہیں ۔ ایک نوجوان لڑکی زیورات سے لدی اکیلی لاہور سے میانوالی بغیر گزند پہنچ رہی ہے ۔گھروں کے کواڑ24 گھنٹے کھلے ،چوری کا ڈر نہ رہزن کا خطرہ۔ معمولی جرم پر ہی پولیس دہلیزپر1122 سے پہلے۔FIR کاٹ کر آپ کے ہاتھ میں۔ پٹواری آپ کی خدمت میں جتا ہوا۔ ٹریفک کا نظام بغیر وارڈنز رواں دواں۔علاج معالجہ فری، ڈاکٹر مستعد ، جعلی ادویات قصہ پارینہ۔ٹونے ٹانکے والے ،فٹ پاتھ حکماء اور جعلی ڈاکٹربے روزگار،بچہ ماں کے شکم سے کالج تک حکومت کا درد سر، 3 سال عمر ہوئی نہیں کہ زبردستی بازیچہ اطفال کے حوالے،پرائمری، ہائی سکول، کالج ہر پاکستانی کالازمی مقدر۔ پنجاب کی شرح خواندگی سری لنکا، انڈیا، فلپائن کو پچھاڑ چکی بلکہ 100 فیصد ہو چکی، ادھرڈگری ادھرروزگار، سنا ہے 2008 سے پہلے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ۔ آنکھ کھلی تو جوزف بستی کو جلتے پایا،” سب کچھ جل گیا“۔
تازہ ترین