• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ایسے لگ رہا ہے کہ آنے والے الیکشن کی مہا بھارت جنگ سندھ میں لڑی جا رہی ہے جس پر پچھلی چار دہائیوں میں ہونے والے الیکشنوں میں پیپلزپارٹی نے ہی فتح حاصل کی ہے۔ پچھلے پانچ سال میں پیپلز پارٹی کی صوبے میں منفی کارکردگی اور اس کے ایم کیو ایم سے اتحاد کی وجہ سے سندھی عوام بہت ناراض ہیں لیکن یہ فقرہ بھی عام سننے کو ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا نعم البدل ہے بھی کیا؟ مطلب یہ کہ ابھی تک کوئی دوسری پارٹی سندھیوں کے دل میں اتنا نہیں اتر سکی کہ وہ اسے پیپلز پارٹی کا متبادل قرار دیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری پارٹیاں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کیا کریں کہ وہ سندھیوں کے تحفظات دور کرتے ہوئے ان کا دل موہ لیں اور ان کو باور کرادیں کہ وہ ان کے قومی، سماجی اور معاشی مستقبل کی بہتر ضمانت بن سکتی ہیں۔
میاں نواز شریف کو بھی مرکز میں نمائندہ قومی حکومت بنانے کیلئے سندھ کی شدید ضرورت ہے اور شاید وہ اسی لئے بہت زیادہ تقریریں سندھ میں ہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے رتوونو ڈیرو (لاڑکانہ) اور دیگر مقامات پر بہت کامیاب جلسے کئے ہیں، ان کے ایک امیدوار نے ضمنی انتخاب میں بھی عام توقع سے بڑھ کر ووٹ حاصل کئے ،اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سندھ میں قابل ذکر کردار ادا کر سکتی ہے لیکن پھر بھی صوبے کا قریبی مشاہدہ کرنے والے حلقوں کے خیال میں میاں صاحب ابھی سندھی تذبذب کی دیوار مسمار کرتے ہوئے ان کے دل نہیں جیت سکے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے منشور اور پروگرام میں سندھی عوام کے دلوں میں تاریخی طور پر بیٹھے وسوسے دور کردیں تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سندھ کے مقبول عوامی رہنما بن سکتے ہیں۔
سندھ سے باہر رہنے والوں کا سندھیوں کے بارے میں عجیب و غریب تصور ہے۔ ان کے خیال میں سندھیوں کے لئے لسانی اور نسلی ہونا ہی اہم ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی پہلو سے پاکستان کی سیاست کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اسی بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر حال میں پیپلز پارٹی ہی جیتے گی اور کوئی پنجابی لیڈر سندھیوں کے بدترین رہنماوٴں کی بھی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ تصور کلیتاً گمراہ کن ہے کیونکہ سندھی عوام بھی باقی پاکستانیوں اور انسانوں کی مانند ہیں جن کے ساتھ پیٹ بھی لگے ہوئے ہیں اور وہ سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی نے ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔
جو سندھی بھی پنجاب کا چکر لگا کر جاتا ہے اس کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کا صوبہ کس طرح سے ویران کیا گیا ہے۔ سندھی ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ گاڑی کی کھڑکھڑاہٹ سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ پنجاب کی سرحد سے نکل کر سندھ میں داخل ہو گئے ہیں، عالمی اداروں کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی لہٰذا وہاں کوئی منصوبہ بھی قابل عمل نہیں ہو پاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں سیاست دان، نوکر شاہی حتیٰ کہ این جی اوز بھی ہر منصوبے سے مال بنانے کے لئے اتنے روڑے اٹکاتے ہیں کہ کچھ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں پنجاب کے دیہاتوں سے بھی بری سڑکیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتنے کے لئے موقع پرستی دکھاتے ہوئے بھی شہر میں سڑکیں تعمیر نہیں کیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں ترقیاتی کام نہ کرانے کا اب کوئی بہانہ بھی نہیں ہے کیونکہ مرکز میں بھی انہی کی حکومت ہے وگرنہ تو اس کا سارا الزام اسلام آباد پر تھوپ دیا جاتا۔ اب تو سندھی سمجھتے ہیں کہ اگر مرکز میں اتنی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی سندھ کے لئے کچھ نہیں کیا جا سکا تو مستقبل میں تو ایسا موقع مشکل سے ہی ملے گا۔
شاید سندھی عوام ترقیاتی پروگراموں کی عدم موجودگی کو بھی نظر انداز کر دیتے لیکن وہ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کے ساتھ ملی بھگت کو کسی بھی طرح ہضم نہیں کر سکتے۔ سندھی اپنے ہی صوبے میں اقلیت یا ثانوی حیثیت قبول کرنے کے لئے نہ تیار ہیں اور نہ ہی تیار ہو سکتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے صوبے میں اپنا وجود اور اپنی شناخت قائم رکھنا ان کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ ان کو اپنے ہی صوبے میں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ان کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت بنانے کے لئے ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ اس کو بھی ہضم کر گئے چونکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کو اس کی ضرورت تھی۔
جب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری ہوا اور ذوالفقار آباد کا نیا شہر آباد کرنے کے منصوبے بننے لگے تو سندھیوں کو یقین ہو گیا کہ صدر زرداری نے تمام حدود پار کردی ہیں اور ان کے نام کے ساتھ سندھ دشمنی کی آوازیں سر اٹھانے لگیں۔ ادھر زرداری صاحب کے فارمولے میں انہیں مرکز میں اگلی حکومت بنانے کے لئے ایم کیو ایم کی سخت ضرورت ہو گی لہٰذا وہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا ڈرامہ تو کر سکتے ہیں لیکن گورنر ایم کیو ایم کا ہی قائم رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں چند سندھی سیٹوں پر ہار جانا ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی کی نشستوں سے بہرحال کم ہی ہوگا لہٰذا وہ ایم کیو ایم کو اتحادی بنائے رکھنے کیلئے چند سندھی سیٹیں (مع لیاری) ہارنے کے لئے تیار ہیں۔
اب بہت سے سندھی سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ان کے ووٹوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر یرغمال کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے اس حصار سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف کے پنجابی ہونے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں۔ ہمارے دوست اور سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے سابق صدر عزیز ناریجو کا کہنا ہے کہ اگر میاں صاحب اپنے منشور میں مندرجہ ذیل نکات شامل کر لیں تو وہ سندھ کے مقبول ترین رہنما بن سکتے ہیں۔
(1) مخلصانہ انداز میں سندھ کے لئے ترقیاتی منصوبے تشکیل دیئے جائیں اور ان کے لئے قابل یقین لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ شہری اور دیہی سندھ کے مسائل کو یکساں اہمیت دی جائے۔ (2) مسلم لیگ (ن) یہ واضح اعلان کرے کہ وہ مضبوط مرکز کی حامی نہیں ہے۔(3)بدعنوانی، دہشت گردی، بھتہ خوری، قبضہ گیری اور مافیاوٴں کے خاتمے کا قابل عمل حل پیش کیا جائے۔(4) سندھ کے دور دراز کے نظر انداز علاقوں کی ترقی کے لئے موثر آواز اٹھائی جائے۔(5) سندھ کے تباہ حال تعلیمی نظام کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی پیش کی جائے۔
(6) کسی نہ کسی شکل میں زرعی اصلاحات اور زمینوں کو ہاریوں میں تقسیم کرنے کا عہد کیا جائے۔
(7) سندھ میں غیر قانونی بیرونی باشندوں کے مسئلے کا حل پیش کیا جانا لازمی ہے۔
عزیز ناریجو کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف سندھ میں فوری طور پر مقبول ہونا چاہتے ہیں تو وہ سندھی،پنجابی، پشتو اور بلوچی کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا عہد کریں۔ اگر یہ نکتہ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں شامل ہو جائے تو میاں نواز شریف بھٹو کی طرح سندھ کے مقبول ترین رہنما بن سکتے ہیں۔
تازہ ترین