• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو دنیا سے گئے تقریباً 2 سال ہونے کو ہیں۔ اسامہ کی شخصیت اور ان کے خلاف کیا گیا ایبٹ آباد آپریشن جب بھی لوگوں کے ذہنوں سے مندمل ہونے لگتا ہے تو انہیں کبھی کسی کتاب کی صورت میں یا کبھی کسی فلم کی صورت میں دوبارہ زندہ کردیا جاتا ہے۔ امریکی سیلز کے ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں گزشتہ سال لکھی گئی کتاب "No Easy Day" اور اب ہالی ووڈ کی فلم "Zero Dark Thirty" کے بعد اسامہ کی شخصیت اور ایبٹ آباد آپریشن دنیا بھر میں دوبارہ موضوع گفتگو بن گیا ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کا کیا گیا آپریشن اور اس کے محرکات میرے لئے ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے جس پر میں نے کافی ریسرچ کی اور قارئین کی معلومات کیلئے کئی کالمز بھی تحریر کئے۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے نہیں کیا کہ میں اسامہ بن لادن کا بہت بڑا فین ہوں بلکہ میرا مقصد ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا تھا تاکہ دشمن کی چالاکیوں، اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق حاصل کیا جا سکے جو دنیا بھر میں ہماری ہزیمت کا سبب بنا۔ میں وہ پہلا کالم نگار تھا جس نے اسامہ تک پہنچنے میں پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کردار کو اجاگر کیا ، اسی طرح جب امریکی سیلز کی کتاب "No Easy Day" منظر عام پر آئی تو اس پر بھی میں نے سب سے پہلے کالم تحریر کیا۔ آج کے کالم کا موضوع بھی اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بننے والی ہالی ووڈ ایکشن فلم "Zero Dark Thirty" ہے جسے کچھ ماہ قبل ہی ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم کی ریلیز کے موقع پر جب میں بزنس کے سلسلے میں لندن میں تھا تو مجھے بھی اس فلم کو دیکھنے کا موقع ملا۔
فلم کا ٹائٹل ”زیرو ڈارک تھرٹی“ (Zero Dark Thirty) یعنی اندھیری رات کے 12 بجکر 30 منٹ ہیں جو ایک فوجی ٹرم ہے۔ فلم کی کہانی میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش اور ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں اُن کی ہلاکت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ فلم کی زیادہ تر شوٹنگ بھارتی شہر چندی گڑھ میں کی گئی جس کیلئے کئی دکانوں کے سائن بورڈز اردو میں بنائے گئے، رکشوں پر لاہور کی نمبر پلیٹس لگائی گئیں اور بھارتی اداکار شلوار قمیض جبکہ اداکارائیں برقعہ پہنے لاہوری شہریوں کے روپ میں سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آئیں۔ فلم میں پاکستان میں غربت کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں جس سے دیکھنے والوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ فلم پاکستان میں بنائی گئی ہے۔ فلم کے ابتدائی منظر میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے میں تعینات سی آئی اے کی خاتون اہلکار مایا اور اس کے ساتھی کو پاکستان کے ایک حراستی مرکز میں دہشت گردوں سے تعلقات کے شبے میں گرفتار ایک شخص پر بدترین تشدد کرتے دکھایا گیا ہے جس کے نتیجے میں سی آئی اے، اسامہ بن لادن کے پیغام رساں کا نام اور اسے پاکستان میں ٹریس کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ بعد میں پیغام رساں کا تعاقب اسامہ کے ایبٹ آباد کمپاؤنڈ تک رسائی دیتا ہے جس کے بعد امریکی سیلز رات کی تاریکی میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور کامیاب آپریشن میں اسامہ کی ہلاکت کے بعد اس کی لاش اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ فلم کے ایک منظر میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کردار کو بھی دکھایا گیا ہے جو اپنی ٹیم کے ہمراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوکر اسامہ کے بچوں کا ڈی این اے حاصل کرکے معلومات سی آئی اے کو فراہم کرتا ہے۔
باکس آفس میں فلم کی کامیابی کے باعث گزشتہ دنوں امریکہ میں ہونے والے85 ویں آسکر ایوارڈ میں زیرو ڈارک تھرٹی کو بہترین فلم سمیت 5 مختلف کیٹیگریز کے ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا اور اس سلسلے میں آسکر ایوارڈ کی تاریخ میں پہلی بار یہ انتظامات بھی کئے گئے کہ بہترین فلم کے آسکر ایوارڈ کا اعلان امریکی صدر بارک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما وائٹ ہاؤس سے کریں گی۔ عین ممکن تھا کہ مذکورہ فلم ”بہترین فلم“ کا ایوارڈ حاصل کرلیتی مگر دنیا بھر کے میڈیا میں فلم میں تشدد کے مناظر کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اور فلم کے کسی منظر میں تشدد کی مخالفت نہ کرنے پر زیرو ڈارک تھرٹی آسکر ایوارڈ حاصل نہ کرسکی اور اس طرح سی آئی اے کی معاونت سے بننے والی ایک اور امریکی فلم ”آرگو“ اس کیٹیگری کی فاتح قرار پائی۔ فلم ”آرگو“ کی کہانی 1979ء کے ایرانی انقلاب کے دوران امریکی سفارتخانے پر قبضے اور 52/امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنانے کے گرد گھومتی ہے۔ ان سفارتکاروں میں 6 سفارتکار کینیڈا کے سفارتخانے میں پناہ لیتے ہیں تاہم بعد میں سی آئی اے ایک منصوبے کے تحت ان امریکی سفارتکاروں کو کینیڈین فلم یونٹ کے افراد ظاہر کرکے ایران سے بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ فلم زیرو ڈارک تھرٹی دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ خیالات جنم لیتے ہیں کہ فلم پروڈیوسر کو ایبٹ آباد آپریشن میں شریک امریکی سیلز تک رسائی کس طرح ملی اور اسامہ کے مارے جانے سے متعلق حساس خفیہ معلومات انہیں کیسے حاصل ہوئیں؟ ان شبہات سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ فلمساز کو سی آئی اے کا مکمل تعاون حاصل تھا جس کا مقصد دنیا میں امریکہ اور سی آئی اے کو ہیرو بناکر پیش کرنا اور پاکستان کی تذلیل کرنا مقصود تھا۔ فلم میں اسامہ بن لادن کی تلاش اور ایبٹ آباد کمپاؤنڈ تک پہنچنے کا تمام تر سہرا سی آئی اے اپنے سر لیتی ہے جبکہ فلم میں پاکستانی ایجنسیوں کے کردار اور تعاون کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ واضح ہو کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد آئی ایس آئی نے موقف اختیار کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کے کویتی پیغام رساں کا فون نمبر اس نے سی آئی اے کو فراہم کیا تھا۔
سی آئی اے کے تعاون سے40 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والی فلم زیرو ڈارک تھرٹی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا ایک تیز ہتھیار ہے جس میں پاکستان اور اس کی افواج کے امیج کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ سی آئی اے کی مدد سے بننے والی فلموں ”آرگو“ اور ”زیرو ڈارک تھرٹی“ کا آسکر ایوارڈ میں بہترین فلموں کیلئے نامزد ہونا، مشعل اوباما کی جانب سے ایوارڈ کا وائٹ ہاؤس سے اعلان کرنا اور سی آئی اے کو ہیرو بناکر پیش کرنا کئی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے جبکہ آسکر ایوارڈ کی ساکھ کو متاثر اور اسے متنازع بھی بناتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سی آئی اے کی معاونت سے بننے والی فلم کو آسکر ایوارڈ دیتے وقت یہ اعلان کیا جاتا کہ بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ سی آئی اے کو دیا جاتا ہے۔ "The Oscar Goes to CIA"
ہالی ووڈ ریمبو، روکی اور اب آرگو اور زیرو ڈارک تھرٹی جیسی فلمیں بناکر دنیا پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ امریکی اور سی آئی اے سپرمین جیسی خصوصیت کے حامل ہیں جن کی دلیری اور جرأت مندی کی دنیا بھر میں دھاک ہے۔ امریکہ اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے انہیں بہادری اور کامیابیوں کی شکل میں پیش کرنے کیلئے کتابوں اور فلموں کا سہارا لیتے ہیں۔ فلم زیرو ڈارک تھرٹی کے آخری منظر میں امریکی سیلز کامیاب آپریشن کے بعد ہیلی کاپٹرز میں اسامہ کی لاش کے ہمراہ افغانستان کے بگرام بیس اترتے ہیں جہاں سی آئی اے کی خاتون ایجنٹ مایا جس کی کوششوں سے یہ مشن ممکن ہوا، اسامہ کی لاش کی شناخت کرتی ہے اور امریکہ روانہ ہونے سے پہلےC-130 طیارے میں سوار ہوتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ مایا کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے جبکہ میری آنکھوں میں ندامت کے۔
تازہ ترین