• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور دنیا میں اپنا نیا امیج بنایا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ترکی کی اقتصادی ترقی میں ملک کے سیاسی استحکام نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی استحکام سے قبل اس ملک کی حالت کسی بھی لحاظ سے پاکستان سے بہتر نہ تھی۔ ایک دور میں جب پاکستان کا عالم اسلام اور دنیا میں امیج بنا ہوا تھا اس وقت ترکی عالم اسلام سے بہت دور سیکولرازم کی دنیا میں گم یورپی یونین کی رکنیت کے سفر کے ذریعے دنیا میں اپنا مقام بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ ترکی نے کئی دہائیوں کا فاصلہ چند سالوں ہی میں طے کرتے ہوئے دنیا کے پہلے سولہ اقتصادی ممالک کی صف میں اپنے لئے جگہ بنالی۔ اس کی سب سے اہم وجہ ملک میں سیاسی استحکام کا قیام ہے۔ ترکی نے یہ سیاسی استحکام کیسے حاصل کیا؟ کیا پاکستان میں بھی سیاسی استحکام قائم ہوسکتا ہے؟
ترکی کے موجودہ آئین ( جو کہ فوج کا تیار کردہ ہے) میں پارلیمینٹ میں صرف ایسی ہی جماعتیں پہنچنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں جنہوں نے کل ووٹوں کا کم از کم دس فیصد (شرح کو حالات کے مطابق کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے) حاصل کیا ہو۔ اسی شرط میں ترکی کا سیاسی استحکام پوشیدہ ہے۔ اس شرط نے ترکی کی سیاست ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ مخلوط حکومتوں کے دور کی جگہ واحد پارٹی حکومت کا دور دورہ ہے۔ ترکی کی 550 نشستوں والی پارلیمینٹ (جو دو ایوانوں کے بجائے ایک ایوان پر مشتمل ہے) میں موجودہ دور میں صرف چار جماعتیں ہی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں جس سے ترکی کی پارلیمینٹ کے کس قدر مضبوط ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اسی نظام کے تحت برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) پچاس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسلسل تیسری بار کامیاب ہوئی اور اس وقت پارلیمینٹ میں اس کو 326 نشستیں حاصل ہیں (اگر دس فیصد کی شرط عائد نہ ہوتی تو کسی بھی صورت آق پارٹی اس قدر زیادہ نشستیں حاصل نہ کر پاتی اور نہ ہی اسے پارلیمینٹ میں کلی اکثریت حاصل ہوتی)۔ ترکی میں مستحکم سیاسی حکومت نے ملک کو مسلسل ترقی کی جانب گامزن رکھا ہوا ہے تو پھر پاکستان جوکہ اقتصادی لحاظ سے ترکی سے کہیں زیادہ مضبوط تھا کیونکر پیچھے رہ گیا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں جمہوریت کا مضبوط بنیادوں پر کھڑا نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لحاظ سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام رقم کرواسکتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اب ذرا سوچنے کی بات ہے اتنی بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے سے کس کو کیا حاصل ہوگا؟ کیا اس سے ووٹ مختلف جماعتوں کے درمیان تقسیم نہ ہو جائیں گے؟ انتخابات میں جس قدر زیادہ سیاسی جماعتیں حصہ لیں گی ووٹ بھی اتنی ہی بڑی تعداد میں ان کے درمیان تقسیم ہو کر رہ جائیں گے۔ اس کی وضاحت کچھ اس طریقے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ ہو اور اس حلقے میں دس سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں اور ایک لاکھ ووٹ دس سیاسی جماعتوں میں کچھ اس طریقے سے تقسیم ہوجائیں۔ پہلی سات سیاسی جماعتیں آٹھ، آٹھ ہزار ووٹ حاصل کر لیں (ان سات جماعتوں کے کل ووٹ 56 ہزار ہوتے ہیں)جبکہ دیگر تین بڑی سیاسی جماعتیں بارہ ہزار، چودہ ہزار اور اٹھارہ ہزار ووٹ حاصل کرلیں تو یہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کل ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرنے کی وجہ سے کامیاب قرار دے دی جائیں گی اور پہلی سات سیاسی جماعتوں کے ووٹ ان پہلی تینوں سیاسی جماعتوں میں ان کی کامیابی کی شرح کے مطابق تقسیم کر دیئے جائیں گے اور اس طرح پارلیمینٹ میں پارٹیوں کی بھرمار ہونے کی بجائے صرف کل ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرنے والی جماعتیں ہی پارلیمینٹ میں جگہ بنا پائیں گی۔ (یہ متناسب نمائندگی نظام نہیں ہے اور نہ ہی دس فیصد کی شرح شرط ہے بلکہ اس شرح میں حالات کے مطابق کمی بیشی بھی کی جاسکتی ہے) پاکستان کے تمام ہی انتخابی حلقوں میں کئی کئی امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کل ووٹوں کا دس فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں ہی کو انتخابات میں کامیاب قرار دیا جائے اور اس طرح پارلیمینٹ کو مضبوط بنایا جاسکے اور مضبوط سیاسی حکومت کے قیام کی راہ کو ہموار کیا جاسکے۔ پاکستان میں اگر اس قسم کے نظام پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پھر انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی حالات مزید ابتر ہو جائیں گے اور ان پر قابو پانا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں رہے گا۔ موجودہ دور میں مخلوط حکومتوں میں مفاہمت کے نام پر سیاسی، اقتصادی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے زیادہ نقصان آئندہ ہونے والے انتخابات کے بعد پہنچ سکتا ہے کیونکہ آئندہ کے انتخابات میں کسی بھی جماعت کے واضح اکثریت حاصل کرنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں اور تمام سروے اس صورتحال کی واضح طورپر نشاندہی کرتے ہیں۔ آئندہ انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دینے کے لئے آزاد اراکین پارلیمینٹ اور چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اراکین کو ملانے کے لئے روپے کی بوریوں کے منہ کھولنے پڑیں گے جیسے سینیٹ کے اراکین کے انتخابات خاص طور پر بلوچستان سے سینیٹ کے اراکین کے انتخابات کے وقت ہوا تھا اور آئندہ انتخابات کے بعد اس رقم میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا خاص طور پر فاٹا سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمینٹ وہ تھر تھیلی ڈالیں گے اور بلیک میل کریں گے کہ حکومت تشکیل دینے کی خواہاں جماعت کو ان کے آگے سر تسلیم خم ہی کرنا پڑے گا ورنہ پارلیمینٹ کو مچھلی منڈی بنانے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ اب یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیسے قدم اٹھاتا ہے کیونکہ موجودہ پارلیمینٹ کی میعاد اسی ہفتے پوری ہو رہی ہے اور یہ ذمہ داری اب الیکشن کمیشن اور کئیر ٹیکر حکومت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ اگر اس سلسلے میں ابھی سے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو پھر ہمیں پچھتانے کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ پاکستان کو ترکی کے مقابلے میں ایک ایڈوانٹیج یہ بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلیاں بھی موجود ہیں جہاں علاقائی سیاسی جماعتوں جن کی قومی سطح پر زیادہ پذیرائی نہیں ہو پاتی صوبائی اسمبلیوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلواسکتی ہیں۔ ان صوبائی اسمبلیوں میں کل ووٹوں کا ڈھائی سے پانچ فیصد تک حد مقرر کئے جانے کی شرط عائد کی جا سکتی ہے تاکہ صوبائی اسمبلیوں کو بھی مستحکم رکھا جاسکے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ قومی سطح پر صرف قومی جماعتوں ہی کو نمائندگی کا موقع میسر آسکے گا اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں جو صرف ایک یا دو شہروں یا قصبوں تک ہی محدود ہوں گی قوم کو یرغمال نہیں بنا سکیں گی اور قوم کو بھی ان کی ہٹ دھرمیوں اور نسلی سیاست سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور خاص طور پر کسی بھی فرقہ وارانہ جماعت کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکے گا البتہ وہ صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی حکومتوں میں جگہ پاسکیں گی اور اپنی اپنی قومیت کی نمائندگی کرسکیں گی۔
دس فیصد کی حد کو عبور کرتے ہوئے پارلیمینٹ میں پہنچنے والی جماعتوں کو سرکاری طور پر حکومت کی طرف سے امداد ملنے کا بھی موقع میسر آئے گا اور پھر انہی پارٹیوں کو قومی سطح پر خبروں اور دیگر ٹاک شوز میں جگہ حاصل ہو پائے گی جبکہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتیں جو دس فیصد ووٹ حاصل نہ کر پائیں گی کو قومی سطح کے ٹیلی ویژن چینلز سے دور رکھا جاسکے گا تاکہ وہ قوم کا وقت ضائع نہ کر سکیں اور قوم کو یرغمال نہ بنا سکیں۔ آخر میں پاکستان کے اخبارات خاص طور پر جنگ کے کالم نگاروں اور جیو ٹی وی کے ٹاک شوز کے اینکر پرسنز سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں اور اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے علاوہ اس پر ڈیبیٹ کا بھی بندوبست کریں تاکہ پاکستان کو سیاسی لحاظ سے مستحکم بنایا جاسکے۔ اگر ترکی سیاسی استحکام کی بدولت ترقی کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟
تازہ ترین