• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27 مارچ کی شام پونے سات بجے جب گلشن اقبال پارک لاہور میں خودکش دھماکے کی خبر آئی تو ایسامحسوس ہوا کہ دماغ بھک سے اڑ گیاہو۔جوں جوں تفصیلات واضح ہوئیںبلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ اعصابی نظام چٹخنا شروع ہوگیا۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پرمائوں ،بہنوں، بھائیوں،بیٹیوں یہاں تک کہ سخت جان باپوں کی آہ و بکا اس قدر شدید تھی کہ یقیناًعرش اور فرش دونوں ہل گئے ہوں گے۔جناح اسپتال اور دیگر اسپتالوں میں متاثرین کی حالت زار دیکھ کر مجھ سمیت کس کا دل اور آنکھیںنہیں بھر آئی ہوں گی۔انتہائی دکھ میں مبتلا زارو قطار روتے ہوئے انسان کو دیکھ کر کوئی بھی کیسے خود پر قابو پاسکتا ہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہر طرف غم کا سمندر امڈ آیا ہو جس میں تیرنا لازم ہے اور تیرتے تیرتے اعصاب شل ہوگئے ۔عجیب سی بے ترتیب ہوتی ہوئی دل کی دھڑکن چیخ چیخ کر رونے پر اکساتی رہی ۔آنکھوں کے گوشے نمی اگلتے رہے۔ قیامت صغریٰ اترنے کی خبر کی تفصیلات دل ایسا بوجھل کرگئیں ۔پہلے بھوک اڑ ی اور بعد ازاں رات میں نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوگئی ۔ٹی وی چینل بدلتی تھی تو چین نہیں آتا تھا خود ہی واپس پھر نیوز چینل پر پہنچتی رہی کہ دھماکہ متاثرین کی خبروں سے دوری ناممکن تھی۔رات یوں ہی کٹ گئی۔اگلے روز جب نماز جنازہ کے مناظر دیکھے تو میرے اندر کی ماں یوں تھی کہ جیسے زندہ لاش۔ کاٹو تو بدن میں خون کا ایک بھی قطرہ نہیں۔ مائوں،بہنوں،بیٹوں،بھائیوں اور باپوں کی آہ و زاریاں اور بین دل پر چھریوںاور برچھیوں کی مانند چل رہے تھے۔ مائیں، باپ ، بھائی اور بہنیںاپنے پیاروں کےجنازوں،تصاویر اور اشیاء کو جس دیوانگی سے چومتے ہوئے دعا گوتھے یقیناً خدائے بزرگ و برتر ساتویں آسمان سے انھیں دیکھ رہا ہوگا۔ میرا ایمان ہے کہ فرشتے ان چار سو کے لگ بھگ متاثرہ خاندانوں کے شہداء اور بچ جانیوالوںکاشمار کرنے کے ساتھ ساتھ ان دشمن انسانیت افراد کے کھاتوں میں بھی اندارج کررہے ہوں گے جنھوں نے کسی کےگھر کی رونق، رحمت اور تین سالہ ننھی پری ایمان فاطمہ،ڈیڑھ ماہ کی دلہن عینی،کسی کے گھر کاجگر گوشہ بیٹااٹھارہ سالہ ساگر مسیح، کسی کےگھر کا سایہ باپ ابراہیم اور گھر کی جنت ماں عائشہ سمیت 63 افراد10 بچیاں،15 بچے،7 عورتیں اور 31 مرد وںسے جینے کا حق چھین لیا۔ جنھوں نے متاثرین کے ورثاء کی دنیا میں اندھیر اکردیا اور نہ ختم ہونے والے غم کی پر چھائیاں ان پر مسلط کردیں۔خدا انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔اس سانحہ کے بعد دیگر پاکستانیوںکی طرح متعدد سوالات میرے ذہن میں بھی کلبلا رہے تھےکہ ایسا کیوں ہوا؟کیسے ہوا؟کس کی کوتاہی تھی؟کس نے کیا؟ غیر ملکی عنصر شامل ہے؟ وطن عزیز میںاب تک کتنے افراد ایسے دھماکوں میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں؟کیا ایسے خودکش دھماکوں کو روکا جاسکتا ہے؟اگر ہاں تو کیسے؟اپوزیشن سمیت ہر کوئی اس سانحہ پر سیاست کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ان الفاظ کو رقم کرنا قطعاً آسان نہ تھا کتنی دفعہ دل خون کے آنسو رویا۔انڈیا، افغانستان اور دیگر طاقتیںاس خطے میں خون کی ہولی کھیل رہی ہیں۔ایران پاکستان میں آکر کہہ رہا ہے کہ انڈیا انکا دوست ہے جو بہت ہی معنی خیز ہے۔پاکستان میں انڈیا کے جاسوس کی گرفتاری اور اسکاایران سے آپریٹ کرنا بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔مجھے یقین ہے کہ فوج بھرپور ذمہ داری سے قربانیاں دیکردہشت گردی کے عفریت کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوششیں کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی آخری دم بھر رہی ہے۔ دہشت گردی کی یہ جنگ لڑنا پھر بھی اتنا سہل نہیں۔ کہنا آسان ہے لیکن پھر بھی خدا ئے بزرگ و برترسے دست بدست دعا گو ہوں کہ متاثرین کو صبر جمیل عطا فرما اور وطن عزیز کو دہشت گردی سے جلدازجلد نجات دلا دے۔ آمین۔
تازہ ترین