• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان افغانستان کی ایک حقیقت ہیں جن کو صرفِ نظر کرتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کا کوئی بھی فیصلہ ممکن نہیں، اگر ہوتا تو کم و بیش 18برس کی سعی پیہم سے جس میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز نے افغانستان میں میدانِ کارزار گرم رکھا، اس قضیے کا کوئی نہ کوئی حل سامنے آ چکا ہوتا۔ افغانستان کے لوگوں کے مزاج اور اس کی جغرافیائی صورتحال اس ملک پر حاکمیت کا وہ خواب کبھی پورا نہیں ہونے دے گی جو امریکہ نے دیکھا تھا۔ اس امر سے پاکستان سے زیادہ کوئی آگاہ نہ تھا چنانچہ پاکستان نے بھی جنگ و جدل کا راستہ چھوڑ کر ایک پُرامن اور خوشحال افغانستان پر نہ صرف زور دیا بلکہ اس ضمن میں مذاکرات کی داغ بیل ڈالنے میں بنیادی اور اہم کردار بھی ادا کیا۔ قطر میں یہ مذاکرات شروع ہوئے اور اچھی خبر یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان 23فروری سے تشدد میں کمی کے معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں جس کے تحت 7دن تک پُرتشدد کارروائیوں سے گریز کیا جائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ مذکورہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مابین وسیع تر معاہدے پر دستخط کی راہ ہموار کرے گا جس پر گزشتہ برس اتفاق ہوا تھا، 29فروری کو اُسی دیرینہ معاہدے پر بھی اتفاق متوقع ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق تشدد میں کمی کا سمجھوتا اگرچہ مکمل سیز فائر نہیں، تاہم اس کا اطلاق صرف امریکہ اور طالبان پر ہی نہیں‘ افغان حکومت پر بھی ہوگا۔ امریکہ اور طالبان کے مابین براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ بلاشبہ عالمی امن کی طرف ایک اہم قدم ہےاور اسی راہ پر چل کر ہی یہ تنازع ختم ہو سکتا ہے۔ اب فریقین کا یکطرفہ طور پر مذاکراتی عمل کو روکنا درست نہ ہوگا جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے ایسے سازگار حالات پہلے کبھی سامنے نہیں آئے چنانچہ ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو معاملات خرابیٔ بسیار کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین