• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آتے آتے یونہی دم بھر کو رُکی ہو گی بہار

جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

فیض صاحب نے مجھ میٹرک پاس طالب علم کو یہ آٹو گراف پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی عمارت میں دیا تھا۔ وہ ہمیں عمر بھر رجائیت کا پیغام دیتے رہے۔ میں یہ بتا رہا ہوں کراچی کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک گزدر آباد میں، جہاں میر محمد بلوچ پروگریسو اکیڈمی کی خوبصورت لائبریری میں مختلف نسلیں فیض صاحب کی 109ویں سالگرہ منانے جمع ہوئی ہیں۔ فیض فہمی کے دعویدار تو کینیڈا سے انڈیا تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن فیض سے والہانہ عشق، ان کی غزلوں، نظموں کو ازبر یاد رکھنے والے، ایک مصرع ختم ہونے سے پہلے اگلا مصرع اٹھانے والے جتنے یہاں موجود ہیں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ ان کی آنکھوں میں جو چمک پھیلتی ہے، چہرے پر ایک انبساط۔ وہ ان کے مطالعے اور ترقی پسندی سے وابستگی کا مجسم اظہار ہے۔

آج اتوار ہے۔ یاد دلانے کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اپنے آئندہ سے ملنے ملانے کا دن۔ مستقبل سے تبادلۂ خیال کے لمحات۔ آئیے پہلے تو ہم اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے پر فخر کریں۔ پھر مسلمان اور پیغمبر آخر الزماںؐ کے اُمتی ہونے پر افتخار محسوس کریں اور آخر میں ایک عظیم مملکت پاکستان کے باضابطہ شہری ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ قابلِ صد رشک ہے یہ سرزمین اور لائقِ صد تحسین ہیں یہاں رہنے والے۔ یہاں پیدا ہونے والے۔ یہاں ہجرت کرکے آنے والے۔ غریبی میں نام پیدا کرنے والے۔ اتنی جفاکش، صابر، شاکر، آزمائشوں کا ہنستے مسکراتے سامنا کرنے والی قوم۔ المیوں کی یلغار، سازشوں کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے مگر یہ خاک نشیں آگے بڑھتے رہے ہیں۔

آپ کی اولادیں آپ سے بجا طور پر یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم دوسری قوموں سے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔ ہم اپنے بنیادی مسائل بھی حل کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ جو اپنے دوست احباب سمیت حکمرانوں پر، بیورو کریسی پر، فوج، عدلیہ اور تاجروں صنعتکاروں پر زوال اور انحطاط کا الزام عاید کرتے رہتے ہیں، کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے تحقیق کی ہے کہ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں یا واقعی یہی طبقات ہماری بربادی کے ذمہ داری ہیں۔

پھر فیض یاد آتے ہیں۔

ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے

قاصدا قیمت گلگشت بہاراں کیا ہے

کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ مے خانہ ہے

آج کل صورتِ بربادیٔ یاراں کیا ہے

آج کے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو انٹرنیٹ تک رسائی ہر لمحے ہے۔ وہ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں سکون اور تسلی سے گزرتی زندگی کے مناظر روز دیکھتے ہیں۔ آپ میں سے بعض انہیں دوسرے ملکوں میں لے بھی گئے ہوں گے یا ان کے کلاس فیلوز گھوم پھر کر آتے ہوں گے۔ ان کے ذہنی آفاق ہمارے ذہنوں سے کہیں زیادہ وسیع اور روشن ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ آرزوئیں بجا طور پر مچلتی ہیں کہ ہم اس ڈسپلن والی خوشحال اور سچی زندگی کیوں بسر نہیں کر سکتے۔ آخر رُکاوٹ کیا ہے۔ سارا دن واویلا ہوتا رہتا ہے لیکن کوئی ماہر، کوئی تجربہ کار یا کوئی تنظیم آکر یہ بتاتی ہے کہ اس وقت اقتصادی مسائل کا حل یہ ہے؟ کوئی تھنک ٹینک یہ رپورٹ دیتا ہے کہ اگر ہم یہ روڈ میپ اختیار کرلیں تو ہماری معیشت پٹڑی پر آ سکتی ہے؟

ہم سب باجماعت روز و شب دوسروں کی تضحیک، تذلیل میں گزارتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں نے بےشمار ترجمان رکھے ہوئے ہیں جو روایتی میڈیا اور نئے سماجی میڈیا پر ایک دوسرے کے الزامات کے جواب دیتے ہیں لیکن کوئی واضح طور پر یہ نہیں بتاتا کہ یہ پالیسی اختیار کی جا رہی ہے یا ہماری ترجیحات یہ ہیں۔

یہ بچے بچیاں جنہوں نے دس بارہ سال بعد ملک کے مختلف مناصب سنبھالنے ہیں۔ ان میں سے کوئی فوج میں جائے گا ۔ کمیشن حاصل کرے گا۔ کوئی سول سروس میں اپنی صلاحیتیں آزمائے گا۔ کوئی بڑی کمپنی کھولے گا۔ کوئی میڈیا میں ستارہ بن کر چمکے گا۔ ایک بڑی تعداد اپنے زورِ بازو سے کھیتوں میں سونا کاشت کرے گی۔ شاہراہوں کی تعمیر میں حصّہ لے گی۔ فلک بوس عمارتیں استوار کر رہی ہوگی۔ ان کے ذہن اس وقت بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہم جو رات دن تذبذب، انتشار، بےسمتی پیدا کر رہے ہیں، ہم کبھی محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے مستقبل کے ذہن اسی انارکی میں گندھ رہے ہیں۔ ایسے خمیر سے اٹھنے والی نسل جب حل و عقد کی ذمہ داری سنبھالے گی تو کیا اس کے سامنے کوئی واضح روڈ میپ ہوگا؟ کیا وہ مزید انارکی کا سبب نہیں بنے گی؟ کیا ہم والدین کو نہیں چاہئے کہ ان کے ذہنوں سے تذبذب اور انتشار نکالیں۔

آپ ان کو وقت نہیں دیتے۔ وہ پھر اپنا رشتہ گوگل سے جوڑ لیتے ہیں۔ وہاں بھی ان کی رہنمائی کے لیے ان کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہم نے کوئی مستند دستاویزات نہیں رکھی ہیں۔ نیٹ کو جو بھی رپورٹیں، تقریریں، الزامات اِدھر اُدھر سے ملتے ہیں وہ انہیں اپنے نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دیتا ہے۔ تصدیق یا توثیق اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ہمارے والدین اور ریاست کا منصب ہے کہ یہاں مصدقہ دستاویزیں موجود ہوں۔ آپ بتائیے کہ اگر آج آپ کے کسی مستقبل نے یہ دریافت کرلیا کہ پاکستان کی ان دنوں زرعی پالیسی کیا ہے؟ کیا کہیں جواب مل سکے گا۔ موجودہ حکمرانوں نے کیا زحمت کی ہے۔ کیا کوئی زرعی، تعلیمی، صحت، اطلاعاتی، مذہبی پالیسی مستند اور باضابطہ کسی ویب سائٹ پر مل سکتی ہے؟ مملکت اور اس کے اصل مالکوں یعنی عوام کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بیگانہ ہو رہے ہیں۔ یہ خلا اور دوری من حیث القوم بہت خطرناک ہے۔

تازہ ترین