• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کی چیخیں نکال دینے والی مہنگائی خصوصاً اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات سے کیا مہنگائی کنٹرول ہو سکے گی اور اگر کنٹرول ہوئی تو کیا یہ ریلیف عارضی نوعیت کا ہوگا یا مستقل بنیادوں پر اس عذاب پر قابو پایا جا سکے گا؟ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور تحریک انصاف کی حکومت کے اب تک فیصلوں اور پالیسیوں کے تناظر میں یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ پاکستان کے لوگ مہنگائی سے زیادہ حالیہ معاشی بحران سے خوفزدہ ہیں، جو عام آدمی کے خیال میں بھی وفاقی حکومت کی پالیسیوں اور بعض فیصلوں کا نتیجہ ہے۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے حالات کی اس سنگینی کا ادراک کر لینا ضروری ہے، جو مستقبل میں سیاسی بےچینی یا اس سے بڑھ کر انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں اشیائے خوراک خصوصاً آٹا اور چینی کی قیمت میں جو غیرمعمولی اضافہ ہوا، اس نے عام آدمی کو یہ باور کرا دیا کہ نہ صرف سب کچھ ٹھیک نہیں ہے بلکہ بہت کچھ خراب ہو چکا ہے۔ مہنگائی پہلے بھی ہوتی تھی۔ آٹے کی قلت بھی پیدا ہوئی مگر اچانک مہنگائی اور اشیائے خوردنی کی قلت سے قبل ایسا معاشی بحران لوگوں نے نہیں دیکھا جو مہنگائی کے حالیہ طوفان سے قبل عوام نے دیکھا۔ معیشت اس قدر سست اور شرح نمو اس قدر کم کبھی نہیں رہی۔ عالمی بینک اور دیگر اداروں کے تخمینے کے مطابق پاکستان کی شرح نمو سال 2020میں تین فیصد کی کمزور سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس جی ڈی پی میں نمو کی شرح 3.3فیصد رہی جبکہ مالیاتی اداروں کی رپورٹس اس دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جی ڈی پی کی شرح نمو 1.9فیصد تھی۔ یہ بات بھی سب تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں معاشی سرگرمیاں ختم ہو رہی ہیں۔ ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ پہلے مہنگائی ہوتی تھی تو معاشی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ افراطِ زر میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی نے حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔

اصل سوال پر آنے سے قبل حکمرانوں کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مہنگائی صرف اشیائے ضرورت میں اضافے کا نام نہیں ہے۔ مہنگائی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اشیائے ضرورت لوگوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی دیگر وجوہ بھی ہیں۔ جب لوگ بیروزگار ہو جائیں گے یا ان کی آمدنی کم ہو جائے گی تو قیمتیں نہ بڑھنے کے باوجود چیزیں ان کے لیے مہنگی ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے اندازے کے مطابق گزشتہ برس 10لاکھ افراد بےروزگار ہوئے اور رواں برس مزید 2لاکھ افراد بےروزگار ہو سکتے ہیں۔ روپے کی قدر کم ہونے سے روزگار والوں کی آمدنی بھی نرخوں میں اضافے کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ دیگر عوامل بھی ہیں، جو لوگوں کو مزید غریب اور چیزوں کو مزید مہنگا کر دیتے ہیں۔ موجودہ حکمران قیادت کو حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ ہمارے پڑوس میں ایران جیسا سیاسی اور داخلی طور پر مستحکم ملک مہنگائی سے پیدا ہونے والی سیاسی بےچینی سے لرز رہا ہے۔ لوگ تحریک انصاف کی تبدیلی کے نعرے سے جو امید وابستہ کیے ہوئے تھے، وہ دم توڑ چکی۔ اب لوگوں کو یہ امید دلائی گئی ہے کہ مہنگائی پر قابو پالیا جائے گا۔ یہ امید ختم نہیں ہونی چاہئے۔ کیا مہنگائی کے عفریت کو قابو کیا جا سکے گا؟ اس سوال کے جواب کیلئے وفاقی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے عالمی اعلیٰ سطح کے غیر معمولی اجلاس منعقد کیے۔ مہنگائی کے عفریت کو پھیلتا دیکھ کر وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے مختص بجٹ میں 7ارب روپے اضافے کی منظوری دی۔ ملک بھر میں 5000نئے یوٹیلٹی اسٹورز قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جہاں کنٹرولڈ ریٹس پر لوگوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا دستیاب ہوں گی۔ یہ ایک اچھا لیکن عارضی اقدام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز سے باہر قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کا اعتراف کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چلتی ہے۔ آئی ایم ایف سبسڈی کی سب سے بڑی مخالف ہے۔ یہ سبسڈی زیادہ دیر نہیں دی جا سکے گی۔ جہاں تک مافیاز اور کارٹیلز کو کنٹرول کرنے کا مسئلہ ہے، وہ بھی عام انتظامی اقدامات سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ آٹا اور چینی برآمد کرو، زرمبادلہ کمائو، پھر ملک میں قلت پیدا ہو تو اس سے زیادہ زرمبادلہ ان اشیا کی درآمدات پر خرچ کرو۔ وزیراعظم اور انکی ٹیم کو اس طرح کے مشورے دینے والوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں بنیادی ضرورت کی اشیا کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے نیشنل ڈیمانڈ سپلائی سیل بنانے کا بھی جواز نظر نہیں آتا کیونکہ نیشنل فوڈ سیکورٹی کی مکمل وزارت موجود ہے۔ یہ کام اسی کا ہے، جو وہ نہیں کر سکی۔ اب ایک سیل کیا کام کرے گا۔ یہ ایک ادارے پر دوسرا ادارے بنانے والا کام ہے جو پہلے بہت ہو چکا۔ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف آپریشن صرف لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ بنے گا۔ یہ سارے اقدامات عارضی نوعیت اور کام چلانے کے ہیں۔ اگر مہنگائی کے عفریت پر قابو پانا ہے تو مجموعی اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی اور عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن سے نکل کر خود فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ سب کچھ سیاسی تصادم اور سخت گیر قوانین سے ممکن نہیں۔

تازہ ترین