• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چوتھے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے سیکڑوں بار کہی ہوئی بات کا پھر راگ الاپا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ایسی جگہ پر ہیں جہاں کوئی حملہ نہیں کر سکتا، وہ یہ بات گذشتہ تین سال میں سترہ بار دھرا چکے ہیں۔ دنیانہ صرف پاکستان کے نیو کلیئر ہتھیاروں کی حفاظت پر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے بلکہ نیو کلیئر چین آف کمانڈ پر سویلین اتھارٹی کے کنٹرول سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار بھی کرتی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ 65 سال میں 4 مرتبہ کلی طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے دور اقتدار میں پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں کے انتظام و انصرام کے لئے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنیا تھا اس اتھارٹی میں وزراء کے علاوہ فوج کے تینوں سربراہوں کو شامل کرنے اور نیو کلیئر اسلحہ کے استعمال کی اجازت کا قطعی اختیار وزیر اعظم کو تفویض کرنے کی تجویز رکھی گئی تھی، علاوہ ازیں 1999ء میں نواز شریف نے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی برآمد کی روک تھام کے لئے ”نیو کلیئر ریگولیٹری اتھارٹی“ کی تشکیل کی بھی منظوری دے دی تھی لیکن بدقسمتی سے جب جنرل مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے معزول کر دیا تو نیو کلیئر ہتھیاروں پر سویلین کنٹرول کے بارے میں تمام تصورات چکنا چور ہوگئے اور پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد پاکستان کے نیو کلیئر ہتھیاروں سویلین کنٹرول کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ بے نظیر بھٹو کا تو بحیثیت وزیراعظم بھی نیو کلیئر ہتھیاروں تک رسائی نہ تھی انہیں ملک خداداد کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں زیادہ تر معلومات پاک فوج سے زیادہ امریکی سی آئی اے مہیا کرتی تھی۔ ابھی حال ہی میں امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد، برطانوی ایم آئی سکس اور بھارتی رات کے ماہرین کا ایک اجلاس بھارتی شہر کالی کٹ میں منعقد ہوا اس اجلاس کا بنیادی مقصد پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے ایریا کی مکمل اطلاعات اور پاکستان کے خلاف ایٹمی معاملات کو پروپیگنڈے کی شکل میں دنیا کے سامنے لانا تھا۔ کالی کٹ میں منعقد اس اجلاس میں سی آئی اے کے 10 موساد کے 14 ، ایم آئی سکس کے 11 اور را کے 15 افسران نے شرکت کی جب کہ اسرائیل، امریکی اور برطانوی ملٹری اتاشیوں نے افتتاحی اجلاس میں حصہ لیا۔ کہا جا رہا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستان کی جوہری سائٹ کی اس مخصوص جگہ کا پتہ چلا لیا ہے جسے پرویز مشرف ”ناقابل شناخت“ کہہ رہے ہیں، ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں تحفظات کا لاحق ہونا کوئی غیر معمولی یا اچنبھا کی بات نہیں، امریکی اور یورپی میڈیا تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ راولپنڈی اور واہ چھاؤنی جو اپنی اہمیت اور سیکورٹی کے حوالے سے ایک ناقابل تسخیر علاقہ ہے اور یہاں افواج پاکستان کے لئے ہر قسم اور ہر نوعیت کا اسلحہ تیار کیا جاتا ہے اگر دہشت گردوں کی تخریبی کارروائیوں سے واہ چھاؤنی محفوظ نہیں تو ایٹم بم کیسے محفوظ ہے؟ ایک جرمن ہفت روزہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اتنے محفوظ نہیں ہیں جتنے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ نامہ نگار نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام دہشت گردی، اسلامی انتہا پسندی اور عوام میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ اور فوج کے مورال میں کمی ایسے محرکات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ یہاں مجھے امریکی مصنف گراہم ایلیسی کی بات یاد آرہی ہے۔ ”ایٹمی دہشت گردی“ نامی کتاب لکھنے والے اس امریکی مصنف نے لکھا ہے کہ اس نے دسمبر 2003ء میں صدر پرویز مشرف پر دہشت گردانہ حملے کے بعد انہیں بتایا تھا کہ جہاں پاکستان کا صدر خود محفوظ نہیں وہاں ملک کا ایٹمی اثاثہ کہاں محفوظ ہوسکتا ہے؟ یورپی میڈیا سے یہ بھی سننے اور پڑھنے میں آیا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے پیشگی حملے کے خطرات کے پیش نظر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو مختلف سمتوں میں پھیلا رکھا ہے اور کثیرالمقاصد سٹرٹیجک اور سیکورٹی حکام کو ان کے پہرے پر بٹھایا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل امریکی میڈیا نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سیاسی بے چینی بڑھنے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں خصوصی امریکی فوجی دستے پاکستانی نیو کلیئر ہتھیار اپنے قبضے میں لینے کے لئے تیار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہوم لینڈ سیکورٹی اور انٹیلی جنس نیوز کی ایک ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی خصوصی سکواڈ جس میں نیو کلیئر سانٹیس وان، اور نیو کلیئر ایمرجنسی سرچ ٹیم آرگنائزیشن کے ارکان شامل ہیں کو تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی ناکامی یا خانہ جنگی کی صورتمیں 100 کے قریب وار ہیڈ جو چھ سے دس خصوصی مقامات پر فوج کی نگرانی میں موجود ہیں کو فوری طور پر قبضے میں لینے کے لئے تیار رہیں تاکہ یہ ہتھیار اسلامی دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایٹمی اثاثوں کی حفاظت 10 ہزار فوجیوں پر مشتمل خصوصی دستوں کی کمانڈ دو میجر جرنلوں کے ذمہ ہے جو طالبان اور القاعدہ کی پہنچ سے بہت دور ہیں کیونکہ ان جرنیلوں کا انتخاب ان کا مغربی نظریات کے حامل جرنیلوں کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ جرنیل ایٹمی اثاثوں کو اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے دیں گے۔
ادھر امریکی اخبار کے ایک کالم نگار نے دنیا کو ”محفوظ“ بنانے کے لئے صدر اوبامہ کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار چونکہ جہادیوں کا بڑا ٹارگٹ ہیں اس لئے دنیا سے خطرات کے خاتمے کے لئے پاکستان کو 100 ارب ڈالر دے کر ان ایٹمی اثاثوں کو خرید لیا جائے۔ صدر اوباما نے جہاں ایک ٹریلین ڈالر کی رقم امریکی معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے مختص کی ہے بہتر ہوگا کہ دنیا کو پرامن بنانے کے لئے وہ 100 ارب ڈالر پاکستان یا پاکستانیوں کو دے کر اس کے ایٹمی ہتھیار خریدلے اور دنیا کو جہادیوں کے عزائم سے محفوظ بنا دے۔ میرے حساب سے پاکستان میں تین (3) بڑے گروہ پائے جاتے ہیں، القاعدہ، بے قاعدہ اور الفائدہ، امریکہ کو اپنے مقصد میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔
اس دھوپ سے کیا گلہ مجھ کو
سائے نے جلا دیا مجھ کو
تازہ ترین