• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز پہلی بار ملک میں روز افزوں مہنگائی خصوصاً آٹے اور چینی کے حالیہ بحران میں اپنی حکومت کی کوتاہی کو تسلیم کرکے اس امید افزا امکان کا دروازہ کھولا ہے کہ مہنگائی کا سبب بننے والی حکومتی پالیسیوں میں اب خاطر خواہ تبدیلی عمل میں آئے گی اور اس کے مفید نتائج کو عوام میں نچلی سطح تک منتقل کرنے کا یقینی اہتمام بھی کیا جائے گا۔ ہفتے کے روز لاہور میں صحت سہولت کارڈ کے اِجرا کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے مہنگائی میں حکومت کے کردار کا یہ اہم اعتراف ان غیر مبہم الفاظ میں کیا کہ ’’میں چینی اور آٹے کے حالیہ بحران میں حکومت کی کوتاہی کو قبول کرتا ہوں اور بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی‘‘۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’تحقیقات جاری ہے جس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا‘‘۔ وزیراعظم کا یہ اعتراف فی الحقیقت اب تک کی اس روش کے مقابلے میں ایک واضح یوٹرن ہے جس کے تحت مہنگائی کا ذمہ دار محض مفاد پرست مافیاؤں اور حکومت کے مخالفین کو قرار دیا جا رہا تھا؛ تاہم ملک کے ممتاز ماہرینِ معیشت اور ذمہ دار میڈیا کی جانب سے آٹے اور چینی کے جاری بحران میں حکومت کے غلط فیصلوں خصوصاً ملکی ضرورت کا لحاظ رکھے بغیر ان اشیا کے بھاری مقدار میں برآمد کیے جانے پر مبنی فیصلوں کے عمل دخل کے حوالے سے حقائق کی مسلسل نشاندہی کی جا رہی تھی۔ مقامِ شکر ہے کہ وزیراعظم کو بھی بالآخر اصل حقیقت کا ادراک ہوگیا جس کے بعد یہ توقع بےجا نہ ہوگی کہ اب مہنگائی کے اصل اسباب کے تدارک اور اس بحران سے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمانے والے حقیقی ذمہ داروں کے تعین کے علاوہ ان کے خلاف قرار واقعی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی تاکہ قوم کو پھر کبھی ایسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تحقیقات کا یہ عمل غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو اور اسے حتی الامکان کم سے کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے، ایسا نہ کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ نئے مسائل و حالات اس معاملے سے توجہ ہٹا دیں اور ذمہ دار ایک بار پھر کسی نتیجہ خیز کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس عمل کو پوری طرح شفاف رکھا جانا بھی ضروری ہے تاکہ لوگ غلط فیصلوں اور اقدامات کے ذمہ داروں کے چہرے اچھی طرح پہچان لیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مہنگائی کے نتیجے میں حکومت سے عوام کی مایوسی کی ذمہ داری میڈیا پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ نیوز چینل کا رپورٹر لوگوں سے مہنگائی پر تاثرات پوچھنے کے بعد سوال کرتا ہے نیا پاکستان کہاں ہے اور وہ معصوم شہری نئے پاکستان سے متعلق منفی باتیں کرکے چلا جاتا ہے۔ معاشی خوشحالی اور ترقی کے ضمن میں انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا کوئی وعدہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا، ان کا مقصد ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر نظامِ مملکت کو استوار کرنا تھا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ تو ایشین ٹائیگر سے کہیں آگے کی منزل ہے اور اسی لیے عوام نے ان سے بڑی خوشگوار امیدیں باندھ لی تھیں۔ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کا جو پروگرام ان کی پارٹی نے عوام کے سامنے پیش کیا تھا، اس کی بنیاد پر لوگوں نے سربفلک قصرِ امید تعمیر کر لیے تھے اور اب یہ امیدیں پوری نہ ہونے پر لوگوں کی مایوسی بھی فطری ہے۔ اس کی ذمہ داری میڈیا پر ڈالنا مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ دور اندیش حکمرانوں کے نزدیک آزاد میڈیا آنکھوں اور کانوں کی طرح ہوتا ہے جبکہ حکومتیں اپنی کارکردگی سے عوام میں اپنا مقام بناتی یا بگاڑتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس یہ موقع آج بھی موجود ہے کہ وہ اپنی صفوں کو درست کرکے اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور عوام کے دلوں میں ازسرِنو امید کے چراغ جلائے۔ ایسا ہو جائے تو میڈیا پر بھی یہی کچھ نظر آئے گا۔

تازہ ترین