• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کے ارکان اور حکومت کے وزراء اپنے پانچ سال پورے ہونے پربہت خوش ہیں۔آج کل اسلام آباد میں ارکان اسمبلی اور وزراء کی دعوتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسی ہی ایک دعوت گزشتہ رات وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کے اعزاز میں منعقد کی گئی۔ اپنی عادت کے مطابق وہ اس الوداعی دعوت میں بھی خاصی تاخیرسے تشریف لائے شاید اس کی وجہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک میٹنگ تھی جس میں وزراء صاحبان ایک دوسرے سے یہ پوچھتے رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کوکیسے قابو کیاجائے؟ الوداعی دعوت میں کائرہ صاحب کے میزبان نے راگ رنگ کا اہتمام بھی کررکھا تھا ۔ ایک نوجوان گلوکارہ کو کائرہ صاحب کا تاخیر سے آنا اچھا نہ لگا لہٰذا جیسے ہی وزیرصاحب تشریف لائے توگلوکارہ نے یہ گانا شروع کردیا…
جایئے آپ کہاں جائیں گے
یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی
یہ گانا سن کر خورشید شاہ کے چہرے پر مسکراہٹیں پھیل گئیں۔ ان مسکراہٹوں نے گلوکارہ کی مزید حوصلہ افزائی کی اوراس کا اگلا گانا یہ تھا…
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کے
کہ دل ابھی بھرا نہیں
تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا۔ دعوت میں موجود کئی صحافی وزراء کی طرف دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ دل بھی بھر گیا، نظر بھی بھر گئی۔ اللہ کے واسطے یہاں سے چلے جاؤ اورپھرکبھی لوٹ کے نہ آؤ۔ مذاق مذاق میں کائرہ صاحب کو یہ بھی پوچھا جارہا تھا کہ کیا ان کی یہ الوداعی دعوت آئین پاکستان کی دفعہ 62اور 63 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے؟ ارکان اسمبلی اور وزراء صاحبان کی الوداعی دعوتوں میں سب سے اہم موضوع الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے کاغذات ِ نامزدگی ہیں جن پرپیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور ق لیگ کے کئی ارکان خاصے پریشان نظر آرہے ہیں۔ کاغذات ِ نامزدگی کے نئے فارم میں بنکوں کے نادہندگان، ٹیکس چوروں اور جعلی ڈگری رکھنے والوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بھی پوچھاگیا ہے کہ آپ نے پچھلے تین سال میں جو غیرملکی دورے کئے اوروہاں جو خرچے کئے ان کی تفصیل بتائیں۔ ارکان اسمبلی سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے پچھلے پانچ سال میں اپنے حلقہ انتخاب کے لئے کون سا اہم کام کیا؟ وزارت ِ قانون نے ان سوالات پراعتراض کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے کسی اعتراض کو خاطر میں لانا مناسب نہ سمجھا اور نئے فارم پرنٹ کروا لئے۔ الیکشن کمیشن کی اس جرأت و بہادری پرعوام کی اکثریت بہت خوش نظر آ رہی ہے۔ وہ لوگ بھی فخر الدین جی ابراہیم اور الیکشن کمیشن کو داد دے رہے ہیں جوصرف چند ہفتے پہلے الیکشن کمیشن کی تشکیل نوکے مطالبے کر رہے تھے۔ خبط عظمت ا ور زعم تقویٰ میں مبتلا کچھ نفسیاتی مریض صرف چند دن پہلے تک ٹی وی چینلز پررو پیٹ رہے تھے کہ فخرو بھائی نے انہیں بہت مایوس کیاہے۔اب ان سب کی زبانیں واہ واہ کر رہی ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ میں ان محققین اوردانشوروں کو منافق کہوں یا ناسمجھ کہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فخروبھائی کے کئی ناقدین اپنا تھوکا چاٹ رہے ہیں اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی مدد سے جو کام کردکھایا ہے اس کا کریڈٹ اپنے سینے پر سجانے کی بھونڈی کوششیں کی جارہی ہیں۔
یاد کیجئے! جنوری 2013 میں ایک صاحب لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کامطالبہ کیا۔ اس وقت چیف جسٹس جناب افتخار محمدچودھری نے بڑے واضح الفاظ میں الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ آپ انتخابات کی تیاری کریں۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی الیکشن کمیشن کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن کچھ لوگ اپنی زبان و قلم سے فخر الدین جی ابراہیم کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) فخروبھائی کا دفاع کرتی رہی۔ جیسے ہی فخرو بھائی نے ان دونوں جماعتوں کی مرضی و منشا کے خلاف ایک فیصلہ کیا دونوں جماعتیں بے چین نظر آتی ہیں اور اپنی زبانوں پر شکوؤں کی آگ جلائے بیٹھی ہیں۔ ہمیں یہ اعتراف کرناچاہئے کہ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کرنا اسی قومی اسمبلی اور اسی حکومت کا کارنامہ ہے۔ قومی اسمبلی کے قائدایوان اور قائد حزب اختلاف نے مل کر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پرایسی شخصیت کا تقرر کیا جو آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی بات نہیں سن رہا۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف جس طریقہ کارکے تحت فخرو بھائی کو الیکشن کمیشن میں لائے وہ طریقہ کاررخصت ہونے والی قومی اسمبلی کی آئینی ترامیم نے طے کیا۔کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟ آئینی ترامیم نے ہمیں کیا دیا؟ ٹھیک ہے یہ جمہوریت بہت بری تھی عوام کے کئی مسائل حل نہ ہوسکے لیکن اس جمہوریت نے آپ کو ایسی آئینی ترامیم دیں جن کے تحت پہلے ایک غیرجانبدار الیکشن کمشنر کا تقرر ہوا اوراب ایک غیرجانبدار نگران حکومت آئے گی۔ یہ نگران حکومت الیکشن کمیشن کی پشت پر کھڑی ہوگی۔ عدلیہ اور فوج الیکشن کمیشن کے ہاتھ اور بازو بنیں گے۔ آزاد میڈیا الیکشن کمیشن کی آنکھیں بنے گا اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے شفاف الیکشن منعقد کیاجاسکتاہے۔ 2008 میں عدلیہ اورمیڈیا آزاد نہیں تھے، کئی جج نظربند تھے اور کچھ ٹی وی اینکرز پرپابندی تھی۔ ریاستی اداروں کوبلوچستان میں من مانی کا موقع مل گیا ا ور وہاں خوب دھاندلی کی گئی۔ 2013 کے الیکشن میں عدلیہ اور میڈیاکے لئے سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں ہوگا۔ امید ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی فوج کی طرف سے الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کی جائے گی اور ان مفادپرستوں کی دوبارہ سرپرستی نہیں کی جائے گی۔ جن کے پانچ سالوں میں بلوچستان کے حالات بد سے بدتر ہوگئے اور بلوچستان اسمبلی معطل کرنی پڑی۔ اب آئینی ضرورتوں کی وجہ سے بلوچستان اسمبلی بحال کی جارہی ہے اورہمیں بلوچستان کی نااہل حکومت کی بحالی کے بعد جمہوریت کی کچھ خرابیاں واضح طورپر نظرآئیں گی۔ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے لیکن اندر سے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مک مکا کرچکے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومت کی مرضی کا اپوزیشن لیڈر لایا جائے گا جو حکومت کی مرضی کا نگران وزیراعلیٰ لانے کا ذریعہ بنے گا۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہوگا لیکن ہمیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا اور صوبائی نگران حکومت کی دھونس اور دھاندلی روکنے کے لئے الیکشن کمیشن کی مدد کرنا ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ شکل یقینا قابل فخر نہیں ہے لیکن 1973 کے متفقہ آئین کی روشنی میں ہمیں اسی نظام کے اندررہ کرچلنا ہے اور اسی نظام کے اندر سے بہتری کی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ ایک ڈکٹیٹر اس آئین کو توڑ کر اور ججوں کو نظربندکرکے ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا تھا لیکن وکلا، میڈیااور سول سوسائٹی کی جدوجہد کے سامنے اسے سرنڈرکرنا پڑا اور ملک سے بھاگنا پڑا۔ اس کمزور اورکرپٹ جمہوریت نے ڈکٹیٹر کا ٹرائل نہیں کیا لیکن ڈکٹیٹر کے معزول کئے گئے جج صاحبان بحال ہوئے، ان جج صاحبان نے ڈکٹیٹر کے این آر او کو مسترد کیا،پھرانہی جج صاحبان نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں نااہل قرار دیا۔ موجودہ حکومت کے پانچ سال کے دوران ریاستی اداروں میں محاذ آرائی کی صورتحال بھی نظرآئی لیکن آج عدلیہ اور فوج الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے پرعزم نظرآتے ہیں۔ اس کمزور اورکرپٹ جمہوریت کے ذریعے پاکستانی عوام کو اپنی تقدیر بدلنے کا سنہری موقع مل رہا ہے۔ووٹ کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے آپ کرپشن اور نااہلی کو شکست دے سکتے ہیں۔ فتح آپ کا مقدر بن سکتی ہے اور یہ فتح صرف آپ کی نہیں جمہوریت اورپاکستان کی فتح ہوگی۔
تازہ ترین