• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم یاسر پیرزادہ میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر ان کی دو صفات مجھے دل سے بھاتی ہیں۔ دردمند دل رکھتے ہیں اور ہر معاملے پر کھلے ذہن سے غور و فکر کرتے ہیں۔ حقائق اور واقعات کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے نتائج نہیں نکالتے۔ لاہور کی ایک غریب بستی جوزف کالونی میں شرپسندوں نے مسیحی شہریوں کے درجنوں مکانات نذر آتش کر دیئے تو اگلے روز ان کا فون آیا ۔لہجے میں اضطراب تھا۔ واقعے پر افسوس اور صدمے کا اظہار کیا لیکن اس پہلو پر اطمینان ظاہر کیا کہ معروف معنوں میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کا اس واقعے سے کوئی تعلق برآمد نہیں ہوا بلکہ جماعت الدعوة کے رہنما حافظ سعید نے تو متاثرین کی بحالی میں مدد کی پیشکش بھی کی۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بھی اپنی جماعت کے اقلیتی شعبے کے ارکان سے ملاقات کر کے اس واقعے کی مذمت کی۔ خاکسار دائیں بازو کے بارے میں کچھ ایسا حسن ظن نہیں رکھتا۔ محترم دوست کی رائے سے جزوی اتفاق کیا اور کچھ دوسرے ممکنہ زاویوں کی طرف توجہ دلائی۔ وہی معروضات آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں۔
مذہبی رہنماؤں کی طرف سے اس واقعے کی غیر مشروط مذمت خوش آئند ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات بھی باعث اطمینان ہیں۔ اگرچہ اس فوری ردعمل کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انتخابات قریب ہیں اور سیاسی قوتیں رائے دہندگان کے کسی طبقے کو برگشتہ کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتیں۔ تاہم تنقیدی شعور کا یہ تقاضا ہے کہ واقعے اور مسئلے میں واضح فرق کیا جائے۔ واقعہ تو ماہ و سال کی تقویم پر محض ایک نشان ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مدھم ہوتا چلا جاتا ہے۔ واقعے کا ماتم کرنے سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ مسئلے کی نشاندہی ہو، قضیے کا بیان ہو اور اقدار کا تعین ہو۔ ہمارے رہنما واقعے کی مذمت میں تو تاخیر نہیں کرتے لیکن زخم کی رفو گری بھی نہیں کرتے، ناسور کی خبر نہیں لیتے۔ دنیا کی کوئی حکومت مجرمانہ واقعات روکنے کے ضمن میں سو فیصد ضمانت نہیں دے سکتی۔ ناروے کی حکومت ایک برخود غلط انتہا پسند کے ہاتھوں ستّر سے زیادہ شہریوں کا قتل روکنے میں ناکام رہی۔ ایک امریکی نوجوان نے اسکول میں بیس معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ حکومتوں کی کارکردگی کا معیار کسی جرم کا وقوع پذیر ہونا نہیں بلکہ ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہے جن کی مدد سے جرم کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ہمارے ملک میں مذہبی قتل و غارت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ریاست نے عقائد کی بنیاد پر امتیاز کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
ہم نے یہ اعلان نہیں کیا کہ عقیدے سے قطع نظر، پاکستان کے تمام شہری رتبے اور حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں۔ یہ امتیاز ناگزیر طور پر معاشرتی رویوں میں سرایت کر جاتا ہے اور غیر ذمہ دار عناصر کو مذہب کا نام استعمال کر کے ذاتی مفادات بٹورنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ جو چاہے، اپنے شخصی مقاصد کے لئے توہین مذہب کا قانون استعمال کر سکتا ہے۔ تسلیم کہ بادامی باغ لاہور میں انتہا پسند عناصر کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا لیکن اس میں کیا شک ہے کہ یہ واردات انتہا پسندی کا شاخسانہ تھی۔ معصوم شہریوں کے گھر جلانے کے پس پشت رواداری نہیں، انتہا پسندی کار فرما تھی۔ ایسے میں مذہبی وعظ اور تلقین سے کام نہیں چلتا۔ بے شک کوئی مذہب ناانصافی اور ظلم کی تلقین نہیں کرتا لیکن مذہب تو رشوت لینے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کی ممانعت بھی موجود ہے۔ مذہبی احکامات کے علی الرغم ریاست کو رشوت اور ملاوٹ کے خلاف قوانین بنانا پڑتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی اشتعال انگیزی کے بارے میں بھی موٴثر قانون سازی اور واضح پالیسی اختیار کی جانی چاہئے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اس واقعے میں انتظامیہ اور پولیس ناکام ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے مذہبی اشتعال انگیزی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے، اسے دیکھتے ہوئے انتظامیہ اس طرح کے مواقع پر مستعدی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے نفسیاتی طور پر مفلوج ہو جاتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر معاملہ بڑھ گیا تو سیاسی قیادت ان کی حمایت نہیں کرے گی۔ گورنر سلمان تاثیر کے خون ناحق کے بعد کون اہلکار مذہبی اشتعال انگیزی کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت کر سکے گا۔ حافظ عبدالمجید تقسیم کے بعد پنجاب کے پہلے چیف سیکریٹری تھے۔ انہوں نے اب سے ساٹھ برس پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر سیاسی قیادت مذہبی اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے تو انتظامیہ کے ارکان اپنے فرائض بطریق احسن انجام نہیں دے سکتے۔
روس، جرمنی اور امریکہ وغیرہ کی تاریخ میں ایک اصطلاح ملتی ہے ”Pogrom“۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہماری زبان میں اس کا کوئی متبادل موجود نہیں کیونکہ ہماری تاریخ میں یہ منحوس روایت کبھی موجود نہیں رہی۔ اسے نہ تو بلوہ کہا جا سکتا ہے اور نہ فساد۔ Pogrom کا مطلب ہے اکثریتی گروہ سے تعلق رکھنے والے مشتعل ہجوم کا منظم طریقے سے کسی مذہبی، نسلی یا لسانی اقلیت پر حملہ آور ہو کر قتل و غارت ، لوٹ مار اور آتش زنی کا ارتکاب کرنا۔ لاہور میںِ9مارچ کو جو کچھ ہوا، اسے Pogromکہا جائے گا اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ فروری 1997ء میں شانتی نگر اور اگست 2009ء میں گوجرہ میں ایسے ہی واقعات پیش آئے تھے۔ جب ایک مخصوص سانحہ بار بار پیش آئے تو اس کے لئے زبان وبیان میں گنجائش بھی نکل آتی ہے۔ اگر ہم ریاستی اور تمدنی سطح پر صحیح حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو شاید اردو زبان میں یہ نامبارک اصطلاح اجنبی نہیں رہے گی۔اس اذیت سے بچنا ہے تو اردو کی نئی نسل میں صف اول کے شاعر علی افتخار جعفری کی تازہ نظم پر غور فرمایئے جس کا عنوان ہے ’سکوت جرم ہے‘۔ علی افتخار گلگت، مانسہرہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ میں شیعہ بہن بھائیوں کا خون بہنے پر خاموش رہے۔
مسیحی ہم وطنوں کی بے حرمتی پر تڑپ اٹھے۔ یہی پاکستان کا حسن ہے۔ یہ جذبہ سلامت ہے تو ہم پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
سدا بہار! کچھ تو کہہ
زمیں پہ تھور جم گیا
دلوں پہ برف جم گئی
بلادِ بے اماں کا زمہریر زندگی کے طول و عرض کھا گیا
ملامتوں کی لہر خواہشوں کو کاٹ کر نکل گئی، نگل گئی
سدا بہار! چپ ہے تو؟
سدا بہار! تیرے برگ ہائے بے خزاں
شدید موسموں کی رستخیزیوں سے بے خبر
مدام، رنگ و بو کی لازوال نعمتوں سے بہرہ ور
یہ سخت وقت اپنی کج ادائیوں میں مست رہ کے مت گزار
جرم ہے سکوت ، چپ نہ رہ سدا بہار
ستم رسیدگاں کے حق میں بول
سدا بہار! چشم نم کا حوصلہ جواب دے گیا
زمین تھک گئی
بدن کے چیتھڑے سنبھالتے سنبھالتے
ترے نواح جنت البقیع بن گئے ، سدا بہار
نہر عسل و کاہِ مخملیں کے وہم سے نکل
یہ وقت ہے خروج کا
سدا بہار! ہم اجل گزیدگاں کا خون اپنے منہ پہ مل
کلام کر
قیام کر
تازہ ترین