• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی دنیا توہینِ آدمیت اور تذلیل انسانیت کی مثال دینے کے لئے یوگینڈا، رونڈا اور صومالیہ کا نام لیتی تھی مگر آج دہشت ووحشت کے لئے پاکستان کی مثال دی جاتی ہے۔ کراچی دنیا کے پانچ خطرناک ترین شہروں میں نہ صرف شامل ہے بلکہ پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں ایک منتخب عوامی حکومت پانچ سال تک سیاہ و سفید کی مالک رہی، جہاں ایک جرأت مند میڈیا متحرک ہے، جہاں عدلیہ بہت طاقتور ہے اور جہاں ملک کی آن پر مرمٹنے اور پیشہ ورانہ مہارت سے لیس فوج موجود ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ اور کتنا بڑا سوال ہے کہ پھر ایسا کیوں ہے۔3مارچ کو نماز مغرب کے بعد ایک بار پھر کراچی خون میں نہا گیا عباس ٹاؤن میں دو بم دھماکوں میں کم و بیش پچاس افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ لوگ مرتے رہے، زخمی کرّاہتے رہے، گھر جلتے رہے، چھتیں گرتی رہیں، لواحقین چیخ پکار کرتے رہے اور امداد کے لئے صدائیں بلند کرتے رہے مگر تین چار گھنٹے تک وہاں پولیس پہنچی، نہ رینجر آئے نہ ایمبولینس گاڑیاں آئیں اور نہ ہی کوئی امدادی کارروائی شروع ہو سکی۔ یہ ہے اکیسویں صدی کے عروس البلاد اور پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کی ابتر صورتحال۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ چند پولیس والے دور سے جلتے ہوئے گھروں اور تڑپتے ہوئے انسانوں کی بے بسی کا نظارہ کرتے رہے اور نادیدہ دہشت گردوں نے کسی کو قریب آنے کی اجازت نہ دی جبکہ بیشتر پولیس والے پیپلزپارٹی کی ترجمان شرمیلا فاروقی کی منگنی کی تقریب میں موجود وزیراعظم کی حفاظت کرتے رہے۔
اس سارے نقّارخانے میں ہمیں ایک صدا سنائی دیتی ہے جو وحشت ناک حالات میں زندگی کی بازی ہار جانے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی کچھ ڈھارس بندھاتی ہے او وہ صدا ہے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی۔ قاضی القضاة کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سچی بات کہہ دیتے ہیں چاہے وہ کتنی کڑوی ہی کیوں نہ ہو ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ عباس ٹاؤن میں غفلت ہی نہیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔آئی جی سندھ سے لے کر ایس ایچ او تک کو ہٹایا جانا چاہئے۔ عدالتوں سے زیادہ معلومات تو میڈیا کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی رینجرز سے پوجھا کہ شہر میں کتنے رینجرز تعینات ہیں تو انہوں نے بتایا کہ 11ہزار افسران واہلکار ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے حیرت اور برہمی کا اظہار کیا کہ پھر بھی شہر میں بدامنی ہی بدامنی ہے۔ پولیس میں ایک بہت بڑی تعداد کنٹریکٹ پر بھرتی سندھ حکومت میں شامل جماعتوں کے کارندوں کی ہے، یہ کارندے امن و امان کے بجائے اپنی پارٹیوں کے قائدین کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں اور اس خوشنودی کے حصول کے لئے سب کچھ کر گزرتے ہیں،حتیٰ کہ قانون اور انسانیت کا دامن بھی تارتار کر دیتے ہیں۔
اہل پاکستان کے لئے مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ پولیس تو سول حکومت کو جواب دہ ہوتی ہے اور سول حکومتوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جس کی بنا پر پولیس کی کارکردگی بہت ہی غیر تسلی بخش ہے مگر گزشتہ سترہ برس سے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں موجود رینجرز تو براہ راست فوج کو جواب دہ ہوتے ہیں، اُن کا سربراہ بھی فوج کا اعلیٰ افسر ہوتا ہے پھر رینجرز کی کارکردگی کیوں سوالیہ نشان ہے۔ 12مئی2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر سارے شہر میں کنٹینر کھڑے کئے گئے اور ایک سیاسی جماعت کے مسلح ونگ نے شہریوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکایا اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا۔ کراچی کے عوام ہی نہیں دنیا جہان کا ہر صاحب احساس شخص سوال کرتا ہے کہ اس وقت رینجرز کہاں تھے۔ جب 9/اپریل2008ء کے روز وکیلوں کو زندہ جلا دیا گیا اس وقت رینجرز کہاں تھے۔ جلتے ہوئے وکیل نے اپنی بیٹی کو فون کرکے کہا تھا تمہارا باپ ہمیشہ اپنے وطن پر قربان ہونے کیلئے تیار رہا مگر جب کوئی قطعہ زمین ظلم سے بھر جائے اور ناقابل رہائش ہو جائے تو پھر وہاں سے ہجرت واجب ہو جاتی ہے۔ 10محرم الحرام2009ء کو سوگواران حسین پر جب بموں سے حملے کئے جا رہے تھے اس وقت کراچی میں تعینات ہزاروں رینجرز کہاں تھے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت رینجرز کی جواب طلبی کرے۔
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کورکمانڈرز کی میٹنگ کے بعد افواج پاکستان کے سپہ سالار اور صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے اور انہیں کراچی کی تشویشناک صورتحال کے حوالے سے اپنے خدشات اور تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ جنرل صاحب نے جس طرح سے ایک منتخب حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت اقتدار مکمل کرنے کی آزادی دی اور کوئی مداخلت نہ کی وہ قابل تحسین ہے مگر جہاں جہاں انہوں نے ضروری سمجھا وہاں وہاں تو انہوں نے اہل اقتدار کو اپنے تحفظات اور خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ عدلیہ کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کے موقع پر آرمی چیف کی کال سے ہی ڈیڈ لاک ختم ہوا اور عدلیہ بحال ہو گئی۔ آئی ایس آئی کو سول حکومت کی زیر نگرانی دینے کا نوٹیفکیشن منظر عام پر آیا تو فوج نے بلاتاخیر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور دنوں میں نہیں گھنٹوں میں نوٹیفکیشن واپس ہو گیا۔ اسی طرح کیری لوگر بل کے بارے میں بھی فوج نے ردعمل ظاہر کرنے میں ذرا نہ دیر لگائی مگر کراچی خون میں نہاتا رہا، وہاں معصوم انسانوں کو ٹارگٹ کلنگ میں موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔گزشتہ پانچ برس میں وہاں11ہزار افراد کو ناحق قتل کیا اور اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قتل وغارت گری کے اتنے خوفناک و تشویشناک حالات کا نوٹس لینے میں شاید کچھ زیادہ ہی تاخیر نہیں کر دی ہے۔ اب تو اس حکومت کے دن تقریباً پورے ہو گئے ہیں۔
سوات میں آئین کے آرٹیکل245 کے تحت فوج نے بھرپور کارروائی کی اور دہشت گردی وبدامنی کا مکمل صفایا کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کراچی میں سوات سے کئی گنا زیادہ خراب صورتحال ہے یہاں دستور کے آرٹیکل 245 کے تحت فوری طور پر کارروائی کیوں نہیں کی جاتی اور کراچی کو بدامنی سے نجات کیوں نہیں دلائی۔ کراچی کے حالات پر سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ تجزیہ چیف جسٹس آف پاکستان کا ہے انہوں نے بجا فرمایا ہے کہ کراچی پر قبضے کیلئے بدامنی پھیلائی جا رہی ہے،کچھ بااثر افراد نے پولیس کو یرغمال بنا رکھا ہے، یہ بااثر قوتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے فائرنگ اور دھماکوں کو فرقہ وارانہ لڑائی کا نام دے دیتی ہیں۔ انتخابات سر پر کھڑے ہیں شفاف انتخابات کیلئے پُرامن ماحول سب سے بنیادی شرط ہے۔ شہر قائد کے حالات اب مزید کسی تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کراچی کے حالات کا تقاضا ہے کہ وہاں کوئی نیم دلانہ نہیں بلکہ سیاسی وفوجی اور عدالتی عزم و ارادے کی یکجائی کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ایک زبردست آپریشن ہونا چاہئے۔ امن وامان کی بحالی کیلئے فوجی آپریشن کا مطلب اقتدار پر قبضہ ہرگز نہیں۔ اگر اب بھی ہم لیت و لعل کا شکار رہے تو بہت تاخیر ہو جائے گی۔
تازہ ترین